دنیا

افغانستان: قرآن خوانی کی محفل میں بم دھماکا، متعدد بچوں سمیت 15 افراد ہلاک

بم رکشے میں رکھا گیا تھا، جاں بحق افراد میں سے اکثر کی عمریں 18 سال سے کم ہیں، مزید 20 افراد زخمی بھی ہوئے، حکام

افغانستان کے ضلع غزنی میں قرآن خوانی کی محفل میں مبینہ رکشا بم دھماکے میں 11 بچوں سمیت 15 افراد جاں بحق اور 20 افراد زخمی ہوگئے۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان کا کہنا تھا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق بم کو رکشے پر رکھا گیا تھا۔

غزنی کے گورنر کے ترجمان وحیداللہ جمعہ زادہ کا کہنا تھا کہ دھماکے میں جاں بحق ہونے والے افراد میں اکثر کی عمریں 18 سال سے کم تھیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان: بم دھماکے میں کابل کے ڈپٹی گورنر ہلاک

حملے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی لیکن افغان حکومتی عہدیداروں، سماجی کارکنوں اور صحافیوں کی جانب سے عموماً اس طرح کے دھماکوں کا الزام طالبان پر عائد کیا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق چھوٹے پیمانے کے بم دھماکوں میں حالیہ چند ہفتوں میں کم از کم 10 سرکاری عہدیدار ہلاک ہوئے اور ان میں سے اکثر حملے دارالحکومت کابل میں ہوئے۔

طلوع نیوز کی رپورٹ کے مطابق صدر اشرف غنی نے حملے کی مذمت کی اور کہا کہ 'طالبان کو لوگوں کی جنگ بندی کے مطالبے کو تسلیم اور دہشت گردی کے حملوں سے احتراز کرنا چاہیے جو انسانیت اور اسلام کے خلاف ہیں اور امن عمل کو قبول کریں'۔

کابل میں قائم برطانوی سفارت خانے نے اپنے بیان میں غزنی حملے کی شدید مذمت کی۔

برطانوی سفارت خانے اپنے بیان میں کہا کہ 'غیر ضروری کشیدگی سے مزید معصوم جانوں کا ضیاع ہوا اور جو اس کے ذمہ دار ہیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے'۔

ترک سفارت خانے کی جانب سے بھی حملے کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ 'ہم متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں'۔

خیال رہے کہ افغانستان میں جاری 19 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے رواں برس ستمبر میں حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا لیکن کشیدگی میں کمی نہیں آئی اور آئے روز بم دھماکوں میں درجنوں شہری جان کھو بیٹھتے ہیں۔

کابل میں 15 دسمبر کو ایک بم دھماکے میں دارالحکومت کے ڈپٹی گورنر محبوب اللہ محبی اپنے سیکریٹری سمیت جاں بحق ہوئے تھے۔

دھماکا کابل کے پی ڈی 9 علاقے مکروریاں چہارم میں مقامی وقت کے مطابق صبح 9 بج کر 40 منٹ پر ہوا، تاہم کسی عسکری گروہ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: کابل راکٹ حملوں سے لرز اٹھا، 8 شہری ہلاک، پاکستان کا اظہار مذمت

گزشتہ ہفتے کابل میں افغان حکومت کے ایک پراسیکیوٹر کو اس وقت گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا جب وہ اپنے کام پر جارہے تھے۔

30 نومبر کو افغانستان میں فوجی اڈے پر ہونے والے ایک خودکش کار بم دھماکے کے نتیجے میں 30 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

اس سے قبل 21 نومبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل کے گنجان آباد علاقوں پر متعدد راکٹ حملے ہوئے تھے جن میں کم از کم 8 افراد ہلاک ہوئے۔

راکٹ کابل کے مختلف علاقوں میں گرے جن میں انتہائی حساس علاقہ وزیر اکبر خان اور شہرِ نو بھی شامل ہیں۔

گزشتہ ماہ کے اوائل میں کابل یونیورسٹی میں ایرانی کتب میلے کے افتتاح کے موقع پر دھماکے کے بعد فائرنگ کے نتیجے میں 25 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

نائیجیریا: مسلح افراد کے ہاتھوں اغوا 300 سے زائد اسکول کے بچے بازیاب

منشیات استعمال کرنے کے الزامات میں کرن جوہر بھی تفتیش کیلئے طلب

بین الافغان مذاکرات قیام امن کا تاریخی موقع فراہم کر رہے ہیں، وزیر اعظم