پاکستان

پھر عید آئی ہے غریبوں کو ستانے کے لیے؟

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روپے کی گرتی قدر نے غریبوں اور درمیانے طبقے کے لوگوں سے عید کی خوشیاں بھی چھین لی ہیں۔ جیسے جیسے عید قریب آتی ہے، ان کے تفکرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

دنیا بھر میں یہ رواج ہے کہ مذہبی تہواروں کے مواقعوں پر عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کردی جاتی ہے۔ حکومتیں ہی نہیں ہر طبقے کے افراد دیگر طبقات کے  لوگوں کو ہرممکن سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً یورپ و امریکہ میں لوگوں کی اکثریت،ایسی چیزیں جو عام دنوں  میں گراں ہونے کے باعث  نہیں خریدی جاسکتیں، ان کی خریداری کے لیے کرسمس کا انتظار کرتی ہے۔

جبکہ ہمارے یہاں عید اور رمضان المبارک کے موقع پر تو بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں  دوگنی سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ترقی یافتہ مغربی ممالک کو تو چھوڑ دیجیے، ہمارے پڑوسی ملک بھارت  میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں بھی رمضان کے مہینے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کرکے مسلمانوں کوسہولت دی جاتی ہے ۔

پاکستان میں راشی افسروں، ملاوٹ کرنے والے متشرع تاجروں، تراویح کا ناغہ نہ کرنے والے ذخیرہ اندوزوں، پانچ وقت نماز کی پابندی کرنے والے اور رمضان میں داڑھیاں رکھ لینے والے ٹارگٹ کلرز کے لیے یہ مہینہ بےحد بابرکت ثابت ہوتا ہے۔ ایک روپے کی چیز پندرہ  روپے میں فروخت کی جاتی ہیں اور اس صریحاً لوٹ مار کو جائز بھی سمجھا جاتا ہے۔

کسی اور روایت پر اس قدر سختی سے عمل ہو نہ ہو، لیکن رمضان کے مہینے میں گراں فروشی اور عید کے چاند پر اختلاف کی روایت کبھی ختم نہیں ہوسکی۔

منافقت بلکہ حماقت کی حد ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ’’قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہے‘‘۔  جبکہ ایک ساتھ رمضان اور عید کرنے پر تیار نہیں، چاہے اپنے اس فساد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اٹھائیسویں تاریخ کو چاند کی شہادت کیوں نہ دینی پڑے۔

پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم نوازشریف نے رمضان المبارک کا استقبال کرتے ہوئے جہاں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا وہیں انہوں نے عمرہ پر جاتے جاتے بجلی کی قیمتوں میں 74 فیصد تک اضافے کی منظوری دیتے گئے۔ گوکہ یہ اضافہ صنعتی اور تجارتی صارفین کے لیے کیا گیا ہے، لیکن اس بات سے کیوں کر انکار کیا جاسکتا ہے کہ اس کے اثرات عام لوگوں تک منتقل نہیں ہوں گے؟ بجلی کے صنعتی صارفین جب مہنگی بجلی سے اپنی پروڈکٹ تیار کریں گے تو ظاہر تیار ہونے والی اشیاء کی لاگت میں اضافہ ہوجائے گا یوں اس کا لازمی اثر اس شے کی قیمت پر بھی پڑے گا۔اسی طرح بجلی کے تجارتی صارفین جب مہنگی بجلی کے بل ادا کریں گے تو وہ اپنے منافع میں کیوں اضافہ نہیں کریں گے؟

اس لیے صاحبِ اقتدار طبقے کا یہ کہنا کہ بجلی کے بلوں میں موجودہ اضافے کا اثر عام آدمی پر نہیں پڑے گا، ایک گمراہ کن بیان ہے۔ اس سے قبل پٹرول کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جاچکا ہے، جس نے بھی مہنگائی کی رفتار کو تیز کرنے میں کافی مدد دی ہے۔ عام آدمی کی کمر پہلے ہی ٹوٹ چکی ہے، اس پر مزید بوجھ بھی اس وقت ڈالا گیا ہے، جب کہ عید کاتہوار سر پر تھا، اور لوگ اس کی تیاری میں مصروف تھے۔

جون کے مہینے میں جاری کی جانے والی ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران افراط زر کی مجموعی شرح سات اعشاریہ پانچ فیصد رہی۔ اس رپورٹ کے مطابق مئی 2013ء کے دوران کنزیومر پرائس انڈیکس میں شامل غذائی اشیا کی قیمتوں میں چونتیس اعشاریہ آٹھ فیصد، کپڑوں اور جوتوں میں ساڑھے سات فیصد، گھروں، پانی، بجلی، گیس اور ایندھن میں اُنتیس فیصد، صحت سے متعلق خدمات اور دواؤں کی قمیتوں میں دو فیصد، ٹرانسپورٹ میں سات فیصد اور تعلیمی اخراجات میں تین اعشاریہ نو فیصد اضافہ ہوا۔ لیکن معاشی ماہرین نے اس رپورٹ میں بیان کیے اعدادوشمار کے مطابق افراط زر کی شرح میں کمی کو حکومتی اقدامات اور اسٹیٹ بینک کی پالیسیوں بجائے معاشی سست روی اور عوام کی قوت خرید میں آنے والی مسلسل کمی کو قرار دیا، جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ روپے کی قیمت میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے ذرائع آمدنی محدود ہوتے جارہے ہیں۔

اس حقیقت کا اعتراف وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وفاقی بجٹ پیش کرنے کے بعد اپنی پریس کانفرنس میں کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

ورلڈ ڈیویلپمنٹ انڈیکیٹر 2013ء کے عنوان سے عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی لکیر کے لیے عالمی پیمانہ دو امریکی ڈالر روزآنہ آمدنی ہے، یعنی تقریباً دو سو پاکستانی روپے۔اس رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان کی 21 فیصد آبادی میں لوگوں کی روزآنہ آمدنی 1.25 امریکی ڈالر سے بھی کم ہے۔

عید کے دن جیسے جیسے قریب آتے جاتے ہیں، عام لوگوں کا بلڈپریشر بڑھنے لگتا ہے، اس سال بھی گزشتہ سالوں کی طرح مارکیٹوں اور شاپنگ سینٹرز میں خریداروں کا ہجوم تو نظر آرہا تھا، لیکن جب دکانداروں سے بات کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس ہجوم میں لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہے، چیزوں کے دام پوچھنے کے بعد جن کا چہرہ کا رنگ ماندپڑ جاتا ہے اور ان میں سے اکثر کی استطاعت اتنی بھی نہیں ہوتی کہ وہ مول بھاؤ کرسکیں۔ وہ مایوسی کے عالم میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ دکاندار بھی اس صورتحال سے سخت پریشان ہیں۔  پہلے  لوگ کئی کئی چیزیں خریدتے تھے، اب کوئی ایک چیز خریدتے وقت بھی کئی مرتبہ سوچتے ہیں۔

ہم نے کراچی کے مضافاتی علاقے میں رہائش پذیر متوسط طبقے کے ایک ملازمت پیشہ صاحب سے اس حوالے سے بات کی تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ آج سے لگ بھگ دس سال قبل ان کی تنخواہ پانچ ہزار تھی، ان دنوں وہ اتوار بازار سے ہر ہفتے  100 روپے کی سبزیاں، مثلاً آلو، پیاز، ادرک، لہسن اور دیگر ضروری چیزیں خریدا کرتے تھے، لیکن اب ان میں سے اتنی مقدار میں محض دو چیزوں کی خریداری پر ہی 100 روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اُس وقت ان کی تنخواہ پانچ ہزار تھی، اس وقت بھی گزارا مشکل سے ہی ہوتا تھا، لیکن اتنی بُری صورتحال نہیں تھی جتنی کہ اب ہے، اس لیے کہ چیزوں کے دام کئی گنا بڑھ چکے ہیں، جبکہ تنخواہ میں محض چھ ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے ہمیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ  اُس وقت ان کو سیلری میں 100 روپے کے 50 نوٹ ملتے تھے، اس وقت کے 100 روپے کی ویلیو آج کے ہزار روپے کی برابر تھی، یا یوں کہیں کہ آج کے ہزار روپے کی قیمت سات آٹھ سال پہلے کے ہزار روپے کے برابر ہوچکی ہے۔ یعنی کل سو روپے میں جتنی چیزیں خریدی جاسکتی تھیں، آج قریب قریب اتنی ہی اشیاء خریدنے میں ایک ہزار روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔

ان صاحب کا کہنا تھا کہ جس شرح سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، اس شرح سے اگر آج ان کو سات آٹھ سال قبل کی تنخواہ دی جائے تو وہ آج کے پچاس ہزار روپے کے برابر ہوگی۔ اس لیے کہ آج کے ایک ہزار روپے کے نوٹ کی قدر اس وقت کے 100 روپے کے نوٹ کے برابر ہوچکی ہے، اور ان صاحب کے بقول اُس وقت ان کو 100 روپے کے پچاس نوٹ ملتے تھے تو آج اس حساب سے انہیں ایک ہزار کے پچاس نوٹ ملنے چاہئیں۔

عید کے حوالے سے جب اُن سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی  کے باعث ان کی اولادیں پڑھائی چھوڑ کر اب کسی نہ کسی کام میں لگ گئی ہیں، تاکہ گھر کا خرچ چلایا جا سکے۔ وہ اور ان کے دو بیٹے اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد شام کے وقت بازار میں بنیان، انڈرویئر اور موزے رومال کا اسٹال لگاتے ہیں، یہ کام وہ پچھلے پانچ سالوں سے ہر رمضان میں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا ”اس طرح کچھ رقم الگ سے مل جاتی ہے، جس سے عید کی تیاری ہوجاتی ہے۔ ورنہ گھر کے پانچ لوگوں کی آمدنی سے توگھر کا خرچ ہی مشکل سے چل رہا ہے۔“

زینب مارکیٹ میں بچوں کے ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکان کے مالک سے جب ہم نے عید کے حوالے سے دریافت کیا کہ اس مرتبہ خریداری کا رُجحان کیسا رہا۔ تو انہوں نے بتایا کہ ”ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے باہر سے آنے والے کپڑوں کی قیمتوں میں  اضافہ ہوگیا ہے۔ چنانچہ ہم نے باہر کے مال کا اسٹاک بہت کم رکھا ہے، اس لیے کہ لوگ قیمت سُن کر ہی آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن ملک میں تیار ہونے والے مال کی لاگت بھی بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہوچکی ہے، یوں گارمنٹس فیکٹریوں نے معیار کم کردیا ہے تاکہ قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ نہ ہو۔ لیکن اس طرح بھی ہماری سیل پر کوئی فرق نہیں پڑسکا ہے، اس لیے کہ جو لوگ اپنے بچوں کو دو دو سوٹ دلایا کرتے تھے، اب  ایک پر ہی اکتفا کرنے پر مجبور ہیں۔ مہنگائی اور آمدنی کم ہونے کی وجہ سے گفٹ دینے کا رجحان بھی ختم نہیں تو بہت کم ہوچکا ہے، جس کا اثر ہمارے کاروبار پر بھی پڑ رہا ہے۔“

گھروں میں کام کاج کرنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ اس کو ماہانہ پانچ ہزار روپے ملتے ہیں، اور اس کا شوہر جو مالی کا کام کرتا ہے، لگ بھگ آٹھ ہزار روپے کمالیتا ہے، اس طرح دونوں کی محنت سے گھر کا خرچ چلتا ہے، جس میں اس کی ساس، سُسر، ایک نند اور خود اس کے تین بچے رہتے ہیں۔ اُس کے سُسر چارپائیاں بُننے کا کام کرتے ہیں، لیکن ان کو بمشکل ہی کام ملتا ہے، اس لیے کہ شہروں میں چارپائیوں کے استعمال کا رواج قریب قریب ختم ہوگیا ہے، پھر بھی ان کی جو بھی آمدنی ہوتی ہے، وہ ان کے جیب خرچ کے لیے بھی ناکافی ہوتی ہے۔ ان کی نند ذہنی معذور ہے، اس لیے ساس ان کے بچوں اور ان کی نند کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ ان کا کام صبح سات بجے سے شروع ہوتا ہے اور رات کے دس بجے تک جاکر ختم ہوپاتا ہے۔ اگر رات کو ان کے مالکوں کے گھر مہمان آجائیں یا دعوت ہو تو پھر ایک بھی بج جاتے ہیں اور اکثر گھر جانے کے بجائے انہیں اسی کچن میں دری پر سونا پڑجاتا ہے۔

ان سے ہم نے پوچھا کہ آپ عید کس طرح مناتی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں جن لوگوں کے ہاں کام کرتی ہوں، وہ لوگ عید پر مجھے کچھ رقم الگ سے دے دیتے ہیں، لیکن وہ فقط اتنی ہی ہوتی ہے کہ جس سے میں اپنے بچوں کے کپڑے ہی خرید پاتی ہوں اور جو قرض اُدھار چڑھا ہوتا ہے، اس میں سے وہ ادا کیا جاتا ہے۔

ہم نے عید کے کپڑوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ”اتنی مہنگائی میں ہم غریب لوگ نئے کپڑوں کا بس تصور ہی کرسکتے ہیں، میرے شوہر  کینٹ اسٹیشن سے استعمال کیے ہوئے شلوار قمیض، جن کی حالت کچھ بہتر ہوتی ہے، اپنے اور اپنے والد کے لیے خرید لاتے ہیں،  لیکن اب ان کے دام بھی کافی بڑھ گئے ہیں۔ میں اتوار بازار سے ٹکڑوں میں فروخت ہونے والے کپڑے خرید لیتی ہوں اور جب ہمارے صاحب لوگ چھٹیاں منانے جاتے ہیں تو ان دنوں میں سی کر رکھ لیتی ہوں وہی عید کے دن پہنتی ہوں، لیکن عید کے دنوں میں مجھے عام دنوں سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، اس لیے کہ مالکوں کے گھر مہمانداری بہت ہوتی ہے۔“

ایک صاحب جو اسٹیٹ ایجنسی کا کام کررہے ہیں، جب ہم نے ان سے عید کے حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ لوگوں کی آمدنی کم ہوگئی ہے اور مہنگائی بڑھ گئی ہے، ملک کے حالات خراب ہیں اس لیے لوگ ملک چھوڑکر باہر جانے کو ترجیح دے رہے ہیں، اس لیے پراپرٹی کا کاروبار بیٹھ گیا ہے۔ کوئی سرمایہ لگانے پر تیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا ”بس اب محض کرائے پر چڑھنے والے مکانات میں کمیشن سے ہی ہمارا گزارا ہورہا ہے۔“ انہوں نے ہمیں ایک رجسٹر بھی کھول کر دکھایا جس میں بہت سے مکانات کے ایڈریسز درج تھے، ان میں سے بعض کئی مہینوں اور بعض کئی سال سے برائے فروخت تھے، لیکن کوئی خریدنے والا نہیں تھا۔

عید کے حوالے سے کہنے لگے کہ ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، پانچوں اولادیں پڑھائی کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ کام بھی کررہی ہیں، تب جاکر گھر کا خرچ پورا ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”اگر پورا گھر میری کمائی پر انحصار کرتا تو نجانے میں کتنی بڑی رقم کا قرضدار ہوچکا ہوتا۔ بچوں کے کام کرنے سے یہ ہوا ہے کہ عید پر سفید پوشی کا بھرم قائم رہتا ہے۔“