ان صاحب کا کہنا تھا کہ جس شرح سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، اس شرح سے اگر آج ان کو سات آٹھ سال قبل کی تنخواہ دی جائے تو وہ آج کے پچاس ہزار روپے کے برابر ہوگی۔ اس لیے کہ آج کے ایک ہزار روپے کے نوٹ کی قدر اس وقت کے 100 روپے کے نوٹ کے برابر ہوچکی ہے، اور ان صاحب کے بقول اُس وقت ان کو 100 روپے کے پچاس نوٹ ملتے تھے تو آج اس حساب سے انہیں ایک ہزار کے پچاس نوٹ ملنے چاہئیں۔
عید کے حوالے سے جب اُن سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث ان کی اولادیں پڑھائی چھوڑ کر اب کسی نہ کسی کام میں لگ گئی ہیں، تاکہ گھر کا خرچ چلایا جا سکے۔ وہ اور ان کے دو بیٹے اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد شام کے وقت بازار میں بنیان، انڈرویئر اور موزے رومال کا اسٹال لگاتے ہیں، یہ کام وہ پچھلے پانچ سالوں سے ہر رمضان میں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا ”اس طرح کچھ رقم الگ سے مل جاتی ہے، جس سے عید کی تیاری ہوجاتی ہے۔ ورنہ گھر کے پانچ لوگوں کی آمدنی سے توگھر کا خرچ ہی مشکل سے چل رہا ہے۔“
زینب مارکیٹ میں بچوں کے ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکان کے مالک سے جب ہم نے عید کے حوالے سے دریافت کیا کہ اس مرتبہ خریداری کا رُجحان کیسا رہا۔ تو انہوں نے بتایا کہ ”ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے باہر سے آنے والے کپڑوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ چنانچہ ہم نے باہر کے مال کا اسٹاک بہت کم رکھا ہے، اس لیے کہ لوگ قیمت سُن کر ہی آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن ملک میں تیار ہونے والے مال کی لاگت بھی بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہوچکی ہے، یوں گارمنٹس فیکٹریوں نے معیار کم کردیا ہے تاکہ قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ نہ ہو۔ لیکن اس طرح بھی ہماری سیل پر کوئی فرق نہیں پڑسکا ہے، اس لیے کہ جو لوگ اپنے بچوں کو دو دو سوٹ دلایا کرتے تھے، اب ایک پر ہی اکتفا کرنے پر مجبور ہیں۔ مہنگائی اور آمدنی کم ہونے کی وجہ سے گفٹ دینے کا رجحان بھی ختم نہیں تو بہت کم ہوچکا ہے، جس کا اثر ہمارے کاروبار پر بھی پڑ رہا ہے۔“
گھروں میں کام کاج کرنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ اس کو ماہانہ پانچ ہزار روپے ملتے ہیں، اور اس کا شوہر جو مالی کا کام کرتا ہے، لگ بھگ آٹھ ہزار روپے کمالیتا ہے، اس طرح دونوں کی محنت سے گھر کا خرچ چلتا ہے، جس میں اس کی ساس، سُسر، ایک نند اور خود اس کے تین بچے رہتے ہیں۔ اُس کے سُسر چارپائیاں بُننے کا کام کرتے ہیں، لیکن ان کو بمشکل ہی کام ملتا ہے، اس لیے کہ شہروں میں چارپائیوں کے استعمال کا رواج قریب قریب ختم ہوگیا ہے، پھر بھی ان کی جو بھی آمدنی ہوتی ہے، وہ ان کے جیب خرچ کے لیے بھی ناکافی ہوتی ہے۔ ان کی نند ذہنی معذور ہے، اس لیے ساس ان کے بچوں اور ان کی نند کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ ان کا کام صبح سات بجے سے شروع ہوتا ہے اور رات کے دس بجے تک جاکر ختم ہوپاتا ہے۔ اگر رات کو ان کے مالکوں کے گھر مہمان آجائیں یا دعوت ہو تو پھر ایک بھی بج جاتے ہیں اور اکثر گھر جانے کے بجائے انہیں اسی کچن میں دری پر سونا پڑجاتا ہے۔
ان سے ہم نے پوچھا کہ آپ عید کس طرح مناتی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں جن لوگوں کے ہاں کام کرتی ہوں، وہ لوگ عید پر مجھے کچھ رقم الگ سے دے دیتے ہیں، لیکن وہ فقط اتنی ہی ہوتی ہے کہ جس سے میں اپنے بچوں کے کپڑے ہی خرید پاتی ہوں اور جو قرض اُدھار چڑھا ہوتا ہے، اس میں سے وہ ادا کیا جاتا ہے۔
ہم نے عید کے کپڑوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ”اتنی مہنگائی میں ہم غریب لوگ نئے کپڑوں کا بس تصور ہی کرسکتے ہیں، میرے شوہر کینٹ اسٹیشن سے استعمال کیے ہوئے شلوار قمیض، جن کی حالت کچھ بہتر ہوتی ہے، اپنے اور اپنے والد کے لیے خرید لاتے ہیں، لیکن اب ان کے دام بھی کافی بڑھ گئے ہیں۔ میں اتوار بازار سے ٹکڑوں میں فروخت ہونے والے کپڑے خرید لیتی ہوں اور جب ہمارے صاحب لوگ چھٹیاں منانے جاتے ہیں تو ان دنوں میں سی کر رکھ لیتی ہوں وہی عید کے دن پہنتی ہوں، لیکن عید کے دنوں میں مجھے عام دنوں سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، اس لیے کہ مالکوں کے گھر مہمانداری بہت ہوتی ہے۔“
ایک صاحب جو اسٹیٹ ایجنسی کا کام کررہے ہیں، جب ہم نے ان سے عید کے حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ لوگوں کی آمدنی کم ہوگئی ہے اور مہنگائی بڑھ گئی ہے، ملک کے حالات خراب ہیں اس لیے لوگ ملک چھوڑکر باہر جانے کو ترجیح دے رہے ہیں، اس لیے پراپرٹی کا کاروبار بیٹھ گیا ہے۔ کوئی سرمایہ لگانے پر تیار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا ”بس اب محض کرائے پر چڑھنے والے مکانات میں کمیشن سے ہی ہمارا گزارا ہورہا ہے۔“ انہوں نے ہمیں ایک رجسٹر بھی کھول کر دکھایا جس میں بہت سے مکانات کے ایڈریسز درج تھے، ان میں سے بعض کئی مہینوں اور بعض کئی سال سے برائے فروخت تھے، لیکن کوئی خریدنے والا نہیں تھا۔
عید کے حوالے سے کہنے لگے کہ ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، پانچوں اولادیں پڑھائی کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ کام بھی کررہی ہیں، تب جاکر گھر کا خرچ پورا ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”اگر پورا گھر میری کمائی پر انحصار کرتا تو نجانے میں کتنی بڑی رقم کا قرضدار ہوچکا ہوتا۔ بچوں کے کام کرنے سے یہ ہوا ہے کہ عید پر سفید پوشی کا بھرم قائم رہتا ہے۔“