پاکستان

موسم کی تبدیلی، حفاظتی اصولوں کی خلاف ورزی کورونا کیسز میں اضافے کی بڑی وجہ

شہریوں خاص طور پر نوجوانوں کی جانب سے لاپروائی برتنا بزرگوں اور کمزور مدافعت والے افراد کو بڑے خطرے سے دوچار کر رہا ہے، ماہرین

کراچی: متعدی امراض کے ماہرین نے کہا ہے کہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی جانب سے جان بوجھ کر حفاظتی اصولوں کو نظر انداز کرنا کووڈ 19 کیسز کے بڑھنے کے پیچھے ایک اہم عنصر ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وہ کہتے ہیں کہ شہریوں خاص طور پر نوجوانوں کی جانب سے لاپروائی برتنا بزرگوں اور کمزور مدافعت والے افراد کو بڑے خطرے سے دوچار کر رہا ہے، خاص طور پر کراچی جیسے شہر میں جہاں آبادی کی کثافت زیادہ ہے۔

ڈاؤ اوجھا ہسپتال میں اسسٹنٹ پروفیسر اور انٹرنل میڈیسن کی ماہر ڈاکٹر شوبہا لکشمی نے ڈان کو بتایا کہ ’موسم کی تبدیلی، ماسک پہننے یا سماجی دوری کے مشورے پر ناپسندیدگی تعداد میں اضافے میں حصہ ڈال رہی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ پھر مریضوں کی آمد بڑھ رہی ہے اور ہسپتال بھر رہے ہیں۔

تاہم ان کے مطابق لوگ کووڈ 19 کو بالکل عام لے رہے ہیں، ’پہلے ڈر تھا پر اب وہ بھی ختم ہوگیا ہے، اگر ہم آج اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پیز) پر عمل کرنا شروع کریں گے تو تقریباً 2 ہفتوں میں اس کے نتائج سامنے آئیں گے‘۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں کورونا کیسز کی مثبت شرح 7.59 فیصد، کراچی کا تیسرا نمبر

دوسری جانب 4 دسمبر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 4 لاکھ 10 ہزار 72 متاثرین تھے جس میں سے اموات کی تعداد 8 ہزار 260 تھی۔

علاوہ ازیں وزیراعلیٰ سندھ کے دفتر سے جاری صوبے کے اعداد و شمار کے مطابق جمعہ کو ایک ہزار 664 نئے کیسز کی تصدیق ہوئی اور مجموعی تعداد ایک لاکھ 80 ہزار 904 تک پہنچ گئی۔

اسی طرح جمعہ کو 8 اموات بھی رپورٹ ہوئیں اور مجموعی اموات کی تعداد 2 ہزار 991 تک جاپہنچی جبکہ صوبے میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 15 ہزار 500 ٹیسٹ کیے گئے اور اس میں مثبت کیسز آنے کی شرح 10.74 فیصد رہی۔

’تشویشناک صورتحال‘

ادھر ڈان سے گفتگو میں سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس وقت روزانہ کیسز میں 100 سے 200 تک اضافہ ہو رہا ہے۔

تحریری طور پر دیے گئے اپنے جواب میں صوبائی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ ’یہ تشویشناک صورتحال ہے کیونکہ لوگ ایس او پیز پر عملدرآمد میں ناکام ہیں اور تمام تجارتی مراکز (دفاتر) مکمل استعداد کے ساتھ فعال ہیں، (مزید یہ کہ) گزشتہ 48 گھنٹوں میں یہ 1300 سے بڑھ کر 1900 پر پہنچ گئی‘۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اموات کی شرح بھی تیزی سے بڑھی ہے اور یہ ’لہر اس سے زیادہ ہوسکتی ہے جو ہم نے جون میں دیکھی تھی‘۔

تاہم انہوں نے اس بات کی دوبارہ یقین دہانی کرائی کہ صوبے میں ہسپتالوں میں بستروں کی کوئی کمی نہیں۔

ڈاکٹر عذرا کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمیں ہسپتالوں میں گنجائش سے متعلق کوئی پریشانی نہیں، ہم تقریباً ہر ہفتے نجی اور سرکاری دونوں ہسپتالوں میں نئے بستروں کو شامل کر رہے ہیں، مزید یہ کہ گزشتہ روز تک کراچی میں سرکاری و نجی ہسپتالوں میں 211 وینٹی لیٹرز کے ساتھ آئی سی یو بستر خالی تھے جبکہ دونوں شعبوں کے ہسپتالوں میں 717 ایچ ڈی یو (ہائی ڈیپینڈینسی یونٹ) بستر خالی تھے۔

انہوں نے بتایا کہ حیدر آباد ڈویژن میں 50 آئی سی یو اور 132 ایچ ڈی یو بستر خالی ہیں۔

کراچی میں 1770 ’کووڈ بستر‘

محکمہ صحت کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی میں سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں (آئی سی یو، آئیسولیشن وارڈز اور ایچ ڈی یو سمیت) 1770 ’کووڈ بستر‘ ہیں۔

شہر میں سرکاری و نجی ہسپتال مجموعی طور پر 321 وینٹی لیٹرز کے ساتھ کووڈ 19 مریضوں کو دیکھ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ویکسین ٹرائلز کیلئے نمونوں کا حجم تقریباً دگنا کردیا گیا

صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم شہر میں مزید 6 کووڈ ہستالوں کا اضافہ کریں گے جبکہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) میں موجودہ بستروں کی تعداد کو 24 تک بڑھا دیں گے۔

علاوہ ازیں وزیر صحت اور ڈاکٹرز نے شہریوں پر ماسک پہننے پر زور دیا، مزید یہ کہ یکم دسمبر کو عالمی ادارہ صحت نے بھی ایک مرتبہ پھر زور دیا تھا کہ ’ماسکس (وائرس) کے پھیلاؤ کو کم کرنے اور زندگیوں کو محفوظ کرنے میں اہم ہے‘۔

عالمی ادارہ صحت نے 60 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد یا ایسے افراد جنہیں دائمی سانس کی بیماری، امراض قلب، کینسر، موٹاپا، کمزور مدافعت اور ذیابیطس جیسے صحت کے مسائل ہوں انہیں میڈیکل ماسکس کی تجویز دی ہے۔

اس کے علاوہ یہ تجویز دی ہے کہ 60 سال سے کم عمر افراد اور وہ جنہیں صحت کے ان مسائل کا سامنا نہ ہو وہ نان میڈیکل، کپڑے کا ماسک استعمال کرسکتے ہیں۔