سعودی عرب اور عراق نے 30 سال بعد دوبارہ سرحدیں کھول دیں
بغداد: عراق اور سعودی عرب نے 30 سال بعد اپنی زمینی سرحدیں دوبارہ کھولنے اور دونوں ممالک کے درمیان قریبی تجارتی تعلقات قائم کرنے سے ریاض کے حریف تہران کو پریشان کردیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق اعلیٰ حکام نے، جن میں ان کے سرحدی کمیشن کے سربراہ اور عراق کے وزیر داخلہ بھی شامل تھے،عرعر کراسنگ کو باقاعدہ طور پر کھولنے کے لیے بغداد سے سفر کیا۔
عراقی حکام نے ریاض سے آنے والے وفد سے ملاقات کی جس کے بعد سرحدی کراسنگ پر لال فیتہ کاٹا گیا جبکہ کارگو کے ٹرکوں کی ایک لائن ان کے انتظار میں تھی۔
واضح رہے کہ 1990 کے بعد عرعر کو لوگوں اور سامان دونوں کے لیے پہلی بار کھولا جارہا ہے، اُس وقت ریاض نے عراق کے سابق آمر صدام حسین کے کویت پر حملہ آور ہونے کے بعد اپنے سفارتی تعلقات بغداد کے ساتھ مکمل طور پر ختم کردیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب نے 30 سال بعد عراق میں اپنا سفارتخانہ کھول دیا
جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار رہے لیکن عراق کے موجودہ وزیراعظم مصطفیٰ الخادمی کے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
یاد رہے مئی کے مہینے میں وزیراعظم کی حیثیت سے مصطفیٰ الخادمی کو اپنا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا کرنا تھا لیکن یہ دورہ بالکل آخری وقت میں سعودی بادشاہ کے ہسپتال منتقل ہونے کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا تھا۔
اگرچہ عراقی وزرا اپنے سعودی ہم منصبوں سے ملاقات کر چکے ہیں لیکن وزیر اعظم کا سعودی عرب کا دورہ کرنا ابھی باقی ہے، گزشتہ ہفتے سعودی عرب کے اعلیٰ سطح کے وفد نے بغداد کا دورہ کیا تھا۔
بغداد، عرعر کو اپنی تجارت کے لیے پڑوسی ملک ایران کے ممکنہ متبادل کے طور پر دیکھ رہا ہے جس کے ذریعے عراق درآمدات کا اپنا بڑا حصہ حاصل کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب اور عراق میں رمضان کے پیش نظر کرفیو میں نرمی
دونوں عرب ریاستیں اپنی دوسری سرحد 'الجمیما' کو بھی دوبارہ کھولنے کے حوالے سے کوشش کر رہی ہیں جو کہ عراق کی جنوبی سرحد پر سعودی سلطنت کے ساتھ واقع ہے۔
تاہم عراق میں موجود ایران کے حمایتی دھڑے، جو کہ خود کو 'اسلامی مزاحمت' کار گروپ کہلواتے ہیں، سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہیں۔
عرعر کے افتتاح سے قبل ایسے ہی ایک گروپ 'اشعب الکہف' نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے 'عراق میں سعودی عرب کے منصوبے کو مسترد' کرنے کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اسلامی مزاحمت کے انٹیلی جنس اراکین عراقی سرحد پر سعودی دشمنوں کی سرگرمیوں کی تمام تفصیلات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عراق جنگ لڑنے والے سابق امریکی جنرل سعودی عرب میں سفیر نامزد
وزیراعظم مصطفیٰ الخادمی نے رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے مفاہمت و مصالحت کو سعودی 'نوآبادیاتی' سے تشبہیہ دینے والوں کو سخت جواب دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جھوٹ ہے اور شرمناک ہے۔
عراقی وزیراعظم نے کہا کہ ہم انہیں عراق میں خوش آمدید کہتے ہیں، انہیں سرمایہ کاری کرنے دیں، سعودی عرب کی سرمایہ کاری سے ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں جہاں ایک تہائی سے زیادہ نوجوان بے روزگار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ قریبی تعلقات کا ایک طویل دور آنے والا ہے۔
مزید پڑھیں: 'سعودی بادشاہ امریکا کے بغیر نہیں چل سکتے‘
امریکا کی قیادت میں 2003 میں صدام حسین کا تختہ پلٹنے کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری نہیں آئی ہے جبکہ ریاض، سیاست میں نئے غلبے کو ایران کے ساتھ تعلقات پر شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔
2017 میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کے بغداد کے دورے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہونا شروع ہوئے تھے، یہ دہائیوں میں پہلا دورہ تھا جس کے بعد عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی نے ریاض کا دورہ کیا تھا۔
دونوں ممالک کے درمیان کمرشل پروازیں بحال ہوچکی ہیں اور عہدیداروں نے عرعر سے متعلق باتیں کرنا شروع کردی ہیں، ایک اعلیٰ امریکی سفارتکار بریٹ مک گرک بھی 2017 میں وہاں کا دورہ کر چکے ہیں اور اسے دوبارہ کھولنے کے فیصلے کی حمایت کر چکے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ تمام منصوبے بارہا ملتوی ہوتے رہے اور عرعر کو صرف مخصوص موقع پر حج کے لیے مکہ مکرمہ جانے والے عراقی زائرین کے لیے کھولا جاتا تھا۔
سعودی عرب کے بعد عراق تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) میں تیل پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔