ہولوکاسٹ کی طرح اسلام مخالف مواد پر بھی پابندی لگائی جائے، عمران خان کا زکر برگ کو خط
وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز کی سب سے بڑی کمپنی فیس بک کو کہا ہے کہ ہولوکاسٹ کی طرح اسلاموفوبیا اور اسلام کے خلاف نفرت انگیز مواد پر پابندی عائد کی جائے۔
فیس بک کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) مارک زکر برگ کو لکھے گئے خط میں وزیراعظم نے کہا کہ ’میں آپ کی توجہ بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں جو دنیا بھر میں نفرت، انتہا پسندی اور تشدد کی حوصلہ افزائی کررہا ہے ایسا خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بالخصوص فیس بک کے ذریعے کیا جارہا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’میں ہولوکاسٹ پر سوال اٹھانے یا تنقید کرنے والی پوسٹس پر پابندی کے لیے آپ کے اٹھائے گئے اقدامات کو سراہتا ہوں جو جرمنی اور یورپ میں نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کی انتہا تھی‘۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی آزادیِ اظہار کی آڑ میں 'اسلاموفوبیا مہم' کی شدید مذمت
انہوں نے کہا کہ آج ہم دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے خلاف بھی ایسا ہی منظم قتل عام دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ ریاستوں میں مسلمانوں کو لباس سے لے کر عبادت تک کے ان کے جمہوری ذاتی انتخاب اور ان کے شہریت کے حقوق دینے سے انکار کیا جارہا ہے۔
وزیر اعظم نے تحریر کیا کہ ’بھارت میں مسلمان مخالف قوانین اور اقدامات مثلاً سی اے اے اور این آر سی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگز اور مسلمانوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرانا اسلاموفوبیا کے مکروہ رجحان کی عکاسی کرتا ہے‘۔
عمران خان نے کہا کہ ’فرانس میں اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے اور ہمارے نبی ﷺ اور اسلام کو ہدف بنانے والے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی اجازت ہے‘۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مسلمانوں کے ساتھ روز بروز بڑھتی بدسلوکی اور کردار کشی کے پیش نظر میں فیس بک پر اسلاموفوبیا اور اسلام کے خلاف نفرت انگیز مواد پر بھی اسی طرح کی پابندی لگانے کی درخواست کرتا ہوں جیسا کے ہولوکاسٹ کے لیے عائد ہے۔
مزید پڑھیں:اسلاموفوبیا کے خلاف ہمارا مؤقف غیر متزلزل ہے، وزیر اعظم
خط کے آخری حصے میں وزیراعظم نے کہا کہ نفرت کے پیغام پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔
وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کو اسلاموفوبیا پر مکمل پابندی سے قبل مسلمانوں کے خلاف قتل عام کا انتظار نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ بھارت اور اس کے زیر تسلط کشمیر میں ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بذات خود تعصب اور جانبداری کا عکاس ہے جو بنیاد پرستی کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے گا۔
یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس میں وزیراعظم نے اسلاموفوبیا کے واقعات کی جانب عالمی برادری کی توجہ دلائی تھی اور غیر قانونی طور پر جان بوجھ کر اشتعال انگیزی، نفرت اور تشدد پر اکسانے کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے پر زور دیا تھا۔
ساتھ ہی انہوں نے اسلامو فوبیا سے لڑنے کے لیے ایک عالمی دن مختص کرنے کی بھی تجویز دی تھی۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس کے موقع پر متعدد مرتبہ بہت واضح الفاظ میں عالمی برادری کو بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔
جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ نائن الیون کے بعد دنیا میں اسلامو فوبیا کو بہت تیزی سے پھیلایا گیا، اس سے تفریق پیدا ہوئی اور مسلمان خواتین کے حجاب تک پہننے کو مسئلہ بنا دیا گیا، خواتین حجاب پہن رہی ہیں لیکن چند ملکوں میں اس پر پابندی ہے اور انہیں اس سے مسئلہ ہے، چندملکوں میں کپڑے اتارنے کی تو اجازت ہے لیکن پہننے کی نہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا سے دکھ ہوتا ہے، دنیا کا کوئی مذہب دہشت گردی اور انتہا پسندی کا درس نہیں دیتا، اسلام کے متعلق دنیا میں غلط تاثر پیدا کیا گیا، نائن الیون کے بعد کچھ مغربی رہنماؤں نے اسلام کو دہشت گردی و انتہا پسندی سے جوڑنے کی کوشش کی، اس سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو تکالیف برداشت کرنا پڑی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مغربی ممالک میں ہر دو سال بعد پیغمبر اسلام کی گستاخی کی جاتی ہے، وزیراعظم
وزیراعظم نے کہا تھا کہ عالمی برادری کو اس کی وجوہات پر توجہ دینی چاہیے، تمام معاشروں میں انتہا پسند موجود ہوتے ہیں لیکن کوئی مذہب انتہا پسندی کا پرچار نہیں کرتا، نائن الیون سے قبل زیادہ خودکش حملے تامل ٹائیگرز نے کیے جو ہندو تھے لیکن کسی نے ہندوؤں کو انتہا پسند نہیں کہا، اسی طرح جاپانی پائلٹس نے بھی دوسری جنگ عظیم میں خودکش حملے کیے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذہب کا انتہا پسندی سے تعلق نہیں ہے۔
وزیراعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ میں انتہا پسند اور روشن خیال اسلام کی اصلاحات سے متفق نہیں کیونکہ اسلام ایک ہی ہے جو ہمارے نبی ﷺ لے کر آئے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہم دنیا میں اسلام کا اصل تشخص نہیں پیش کر سکے، مغرب میں مخصوص افراد جان بوجھ کر گستاخی کرتے ہیں لیکن اکثریت کو اس کا علم نہیں، انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے نبی ﷺ ہمارے لیے کتنی عزت و تکریم رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: مسلم امہ ایک ہوکر گستانہ خاکوں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرائے، وزیر اعظم
وزیراعظم نےواضح کیا تھا ہمارے نبی ﷺ ہم مسلمانوں کے دلوں میں بستے ہیں، جب کوئی توہین کرتا ہے تو ہمیں دلی دکھ ہوتا ہے اور دل کو پہنچنے والا دکھ جسم کو پہنچنے والے دکھ سے بہت زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اس سے بہت دکھ ہوتا ہے، جس طرح ہولوکاسٹ کے معاملے پر یہودیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں ایک انسانی معاشرے میں دوسرے انسانوں کا احساس کرنا ہو گا مغرب کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم نے مزید کہا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آزادی اظہار کو ہمارے نبی ﷺ کی تضحیک اور توہین کے لیے استعمال نہ کیا جائے کیونکہ اس سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔