پاکستان

قائمہ کمیٹی نے کلبھوشن کی سزا پر نظر ثانی کا بل منظور کرلیا

پارلیمان میں بل منظور نہ ہوا تو عالمی عدالت انصاف کے حکم کی تعمیل نہ کرنے پر ملک کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،وزیر قانون

اسلام آباد: اپوزیشن کی جانب سے سخت مزاحمت کے باوجود قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے فوجی عدالت سے جاسوسی اور دہشت گردی پر سزائے موت پانے والے بھارتی جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کی سزا پر نظر ثانی سے متعلق حکومتی بل کی منظوری دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بل کی مخالفت کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بل کو بھارتی جاسوس کے لیے این آر او قرار دیا تھا۔

خیال رہے کہ این آر او فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے جلا وطن سیاسی قیادت کو دیے گئے قومی مصالحتی آرڈیننس کا مخفف ہے جس کے تحت سیاستدانوں کے خلاف احتساب کے مقدمات ختم کردیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’آرڈیننس میں کلبھوشن یادیو کی سزا ختم نہیں کی‘

بحث میں حصہ لیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اور انصاف فروغ نسیم نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ریویو اینڈ ری کنسڈریشن) آرڈیننس پر اپوزیشن کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسے عالمی عدالت انصاف کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے متعارف کروایا گیا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پارلیمان میں بل منظور نہ ہوا تو عالمی عدالت انصاف کے حکم کی تعمیل نہ کرنے پر پاکستان کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس موقع پر جے یو آئی ایف کی رکن اسمبلی عالیہ کامران نے کہا کہ ’آپ نے (ملک کی) اسٹیبلشمنٹ کو گمراہ کیا ہے، ہم یہاں بھارتی جاسوس کے لیے قانون سازی کرنے نہیں بیٹھے، اس بل کو (عوامی بحث کے لیے) عوام اور بار ایسوسی ایشنز کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’قانون سازی غیر ضروری ہے کیوں کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ناصر الملک کہہ چکے ہیں کہ آئینی عدالتیں فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کرسکتی ہیں‘۔

مزید پڑھیں: حکومت نے آرڈیننس کی شکل میں کلبھوشن یادیو کو این آر او دیا، بلاول بھٹو

پی پی پی رہنما سید نوید قمر نے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے حکومت فوجی عدالت کی سزا کے خلاف کلبھوشن یادیو کو اپیل کی رعایت دے رہی ہے جو کسی پاکستانی شہری کو بھی میسر نہیں، یہ بھارتی جاسوس کو این آر او دینے کے مترادف ہے اور ہم اس بل کی مخالفت کرتے ہیں۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ وزارت نے مذکورہ آرڈیننس نافذ کر کے بھارت کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں توہین عدالت کی ممکنہ درخواست کو پہلے ہی روکنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ نہ تو بھارت اور نہ ہی کلبھوشن یادیو نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت ریلیف حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔

جس کی وجہ سے وزارت قانون کو بھارتی جاسوس کے لیے وکیل مقرر کرنے کے لیے درخواست دائر کرنی پڑی جو زیر التوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کی استدعا

وزیر قانون نے مزید کہا کہ بھارت عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے کا ہر بہانہ ڈھونڈ رہا ہے، اس صورتحال میں اگر معاملہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجا گیا تو ملک کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بیرسٹر محسن شاہنواز رانجھا نے وزارت قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارتی مفادات کا تحفظ کررہی ہے اور وزارت کو پاکستان پر پابندیوں کے بجائے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کا معاملہ سلامتی کونسل میں لے کر جانا چاہیے۔

جس پر وزیر قانون نے جواب دیا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کورٹ مارشل کے دوران کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی نہ فراہم کر کے ایک لوپ ہول چھوڑ دیا تھا۔

اس کے جواب میں محسن شاہنواز رانجھا نے کہا کہ یہ حکومت کا فیصلہ نہیں تھا کیوں کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کلبھوشن یادیو کو تفتیش کے دوران قونصلر رسائی نہیں ملنی چاہیے۔

مزید پڑھیں: بھارتی حکومت کو کلبھوشن یادیو کا وکیل مقرر کرنے کا حکم

اپوزیشن اراکین نے متفقہ طور پر بل کو ’بھارتی جاسوس کے لیے این آر او‘ قرار دیا اور کمیٹی کے چیئرمین ریاض فتیانہ سے اسے مسترد کرنے کی درخواست کی تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے کمیٹی چیئرمین نے معاملہ ووٹنگ کے ذریعے حل کرنے کا فیصلہ کیا۔

ووٹنگ کے دوران 8 اراکین نے بل کے حق جبکہ 5 نے مخالفت میں ووٹ دیے۔

نیب قوانین

وزیر قانون نے کمیٹی چیئرمین سے قومی احتساب آرڈیننس (دوسری ترمیم) بل 2019 پر بحث مؤخر کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ معاملہ وزیراعظم اور کابینہ اراکین کے سامنے پیش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن نے اس پر بحث کے لیے اصرار کیا تو وہ یہ بل واپس لے لیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن، نیب بل 'بغیر کسی تبدیلی کے' منظور کروانے پر رضامند

محسن شاہنواز رانجھا نے اس پر کہا کہ نیب قوانین کی وجہ سے سیاستدان ایک قانونی کاروبار بھی نہیں چلا سکتا۔

سعد رفیق کا کہنا تھا کہ میں عبدالرزاق داؤد اور ندیم بابر کے خلاف نیب ریفرنس دیکھ رہا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیب کا نام تبدیل کر کے ’مسلم لیگ (ن) احتساب بیورو‘ رکھ دینا چاہیے کیوں کہ انسداد بدعنوانی کا ادارہ صرف اپوزیشن پر توجہ دیے ہوئے ہے۔