پاکستان

بحریہ ٹاؤن تصفیہ فنڈ کہاں استعمال ہوگا؟ سپریم کورٹ نے کمیشن بنادیا

کمیشن سندھ میں ضرورت کے مطابق نئے ترقیاتی منصوبے شروع کرے گا جنہیں تکمیل کے بعد صوبائی حکومت کے حوالے کردیا جائے گا،رپورٹ
|

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جمع کروائے گئے فنڈز کو منصوبوں پر خرچ کرنے کے لیے 11 رکنی کمیشن تشکیل دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین کی خریداری کے معاملے میں عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کی 460 ارب روپے جمع کرانے کی پیش کش کو شرائط کے ساتھ قبول کیا تھا، تاہم اب تک ریئل اسٹیٹ ڈیولپر کی جانب سے 52 ارب 60 کروڑ روپے جمع کروئے گئے اور ڈویلپر کی جمع کروائی گئی اقساط سے نیشنل بینک آف پاکستان کے ذریعے ٹریژری بلز میں سرمایہ کاری کی گئی جس پر رواں برس 29 جون تک 5 ارب 40 کروڑ روپے کا منافع/مارک اپ حاصل ہوا۔

اس معاملے پر آج جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ادا کیے جانے والے فنڈز کو حکومت سندھ کے لیے جاری کرنے اور وفاقی حکومت کے اکاؤنٹس میں جمع کروانے کی 2 مختلف درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین، بحریہ ٹاؤن پاکستان لمیٹڈ کی جانب سے سید علی ظفر اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کا 'تصفیہ فنڈ' خزانے میں جمع کروانے کیلئے حکومت کی درخواست

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی جانب سے فنڈز کے استعمال کے لیے کمیشن بنانے کی استدعا کو منظور کرتے ہوئے حکم دیا کہ فنڈ ایک اعلیٰ سطح کے کمیشن کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔

عدالتی حکم کے مطابق کمیشن سندھ میں ضرورت کے مطابق نئے ترقیاتی منصوبے شروع کرے گا، پہلے سے جاری منصوبوں پر بحریہ ٹاؤن کا ملنے والا پیسہ خرچ نہیں ہوسکے گا۔

کمیشن کا ایک چیئرمین اور 5 ووٹنگ اراکین ہوں گے جو مستقل سندھ کے رہائشی اور کسی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوں گے جبکہ چھ نان ووٹنگ اراکین اپنے عہدوں کی وجہ سے یہ پوزیشن حاصل کریں گے۔

کمیشن کے سربراہ کو سپریم کورٹ مقرر کرے جو سندھ سے تعلق رکھنے والے عدالت عظمیٰ کے ریٹائر جج یا کوئی سابق سرکاری عہدیدار ہوسکتے ہیں۔

کمیشن کے ووٹنگ اراکین میں چیئرمین کے علاوہ گورنر سندھ، وزیراعلیٰ سندھ کا نامزد کردہ ایک ایک نمائندہ، اٹارنی جنرل پاکستان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، کمیشن کی تجویز کردہ ایک خاتون شامل ہوں گی جو نہ تو سرکاری عہدیدار ہوں اور نہ ہی ان کی کوئی سیاسی وابستگی ہو۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن نے ادائیگی کے شیڈول میں توسیع کی درخواست واپس لے لی

علاوہ ازیں نان ووٹنگ اراکین میں چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری خزانہ (جو کمیشن کے سیکریٹری بھی ہوں گے)، بورڈ آف ریونیو سندھ کے سینئر رکن، آڈیٹر جنرل پاکستان کے دفتر میں تعینات سندھ کے سب سے سینئر افسر، اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان کے دفتر میں تعینات سندھ کے سب سے سینئر افسر اور گورنر اسٹیٹ بینک کا نامزد کردہ نمائندہ شامل ہو گا۔

سپریم کورٹ کے مطابق چیئرمین اور دیگر ووٹنگ اراکین کے عہدے کی مدت کمیشن کے پہلے اجلاس سے لے کر 4 سال تک ہوگی تاہم عدالت عظمیٰ کسی بھی رکن کو کسی بھی وقت تبدیل کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

اس کے علاوہ عملدرآمد بینچ کی اجازت سے کمیشن کے چیئرمین اور اراکین کسی بھی وقت استعفیٰ دے سکتے ہیں، اگر گورنر یا وزیراعلیٰ سندھ مقررہ وقت میں اپنے نمائندوں کو نامزد کرنے میں ناکام یا انکار کردیتے ہیں تو عملدرآمد بینچ کو تعیناتی کا اختیار ہوگا۔

حکم نامے کے مطابق کمیشن کے تمام فیصلے ووٹنگ اکثریت سے کیے جائیں گے اور ووٹنگ مساوی ہونے کی صورت میں چیئرمین کو دوسرا ووٹ دینے کا اختیار ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت سندھ نے بحریہ ٹاؤن تصفیہ فنڈز کیلئے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

اس کے علاوہ کمیشن کے چیئرمین جس اجلاس میں نان ووٹنگ اراکین کو مدعو کرنے وہ اس میں حاضری کے پابند ہوں گے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ کمیشن کے کام کے اخراجات، لاگت وغیرہ سندھ حکومت ادا کرے گی اور اگر اس حوالے سے کوئی اختلاف پایا گیا تو اسے عملدرآمد بینچ حل کرے گا۔

عدالت نے کمیشن کا پہلا اجلاس بلانے کے لیے 25 جنوری 2021 کی حتمی تاریخ مقرر کی جو عملدرآمد بینچ سے منظوری کے بعد کمیشن منصوبوں کے عملدرآمد سے متعلق کارروائی اور ٹھیکے دینے کے عمل کا آغاز کردے گا۔

کمیشن کے شروع کیے گئے اور کیے جانے والے تمام منصوبے باقاعدگی سے آڈٹ ہوں گے اور آڈٹ رپورٹ عملدرآمد بینچ کے سامنے پیش کی جائے گی۔

اسی طرح جب کوئی منصوبہ مکمل ہوجائے تو اسے جاری رکھنے اور فعال کرنے کے لیے صوبائی حکومت کے حوالے کردیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کرلی

حکم نامے کے مطابق چیئرمین کو عملدرآمد بینچ کی سفارشات پر چیف جسٹس پاکستان منتخب کریں گے اور منصوبوں کے انتخاب، ان کی لاگت اور مالی معاملات سے متعلق کمیشن کے فیصلے عملدرآمد بینچ کی منظوری پر منحصر ہوں گے۔

حکم نامے کے مطابق کمیشن آئندہ آنے والے کئی سالوں تک فعال رہے گا اور اسے اس کے دائرہ کار، مینڈیٹ اور فنڈز کے لیے دیے گئے رہنما خطوط کے مطابق قائم کیا جائے گا اور اس کے مطابق کام کرنا ہوگا۔

خیال رہے کہ 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) میں 16 ہزار 896 ایکٹر رقبہ اراضی کی خریداری کے لیے 460 ارب روپے کی پیش کش کو کچھ شرائط و ضوابط کے ساتھ قبول کیا تھا۔

فیصلے میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ زمین انکریمنٹ ہاؤسنگ اسکیم شروع کرنے کے لیے دی گئی تھی تاہم ایم ڈی اے نے اسے بحریہ ٹاؤن کی اسکیم کے ساتھ بدل دیا تاکہ وہ اپنی اسکیم شروع کرسکے۔

علی کاظمی کی سیاست، خانہ جنگی اور جنسیت پر بنی فلم ’فنی بوائے‘

مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے مسئلہ کشمیر کو پس پشت رکھا، شہریار آفریدی

عالمی ادارہ صحت اسلام آباد کو ’صحت مند شہر‘ قرار دینے کے لیے مختلف خدمات کا جائزہ لے گا