شہباز شریف نے جو 22 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی وہ کاروبار کا پیسہ نہیں تھا، شہزاد اکبر
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور ان کے اہلخانہ پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے ملازمین کی مدد سے 22 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی اور یہ پیسہ ان کے کاروبار کا نہیں تھا۔
شہزاد اکبر نے لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب شوگر ملز کی متعلقہ چیزوں کو دیکھا جانا شروع کیا تو ابھی تو ایک دو شوگر ملز کی چیزیں دیکھی گئی ہیں تو بڑی دھچکا لگانے والی چیزیں سامنے آئیں کہ دو شوگر ملز العریبہ اور رمضان شوگر ملز اور ان کی بھی محض 10 سالوں پر محیط چیزوں کا جائزہ لیا گیا تو ان دو شوگر ملز کے کم آمدن والے ملازمین ان کے ناموں پر بے نامی اکاؤنٹس ہیں اور ان اکاؤنٹس سے 22 ارب روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ کی گئی۔
مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف 13 اکتوبر تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ان تمام چیزوں کے ثبوت موجود ہیں اور 12 کم تنخواہ دار ملازمین کے نام پر اکاؤنٹس کھلوائے گئے اور اس میں 15 ارب روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ کی گئی، 7 ارب روپے کچھ اور ملازمین اور بے نامی لوگوں کے نام پر جعلی کمپنیاں بنائیں گئیں اور اگر میں ان کی تفصیل میں جاؤں تو یہ ڈبل فیک کمپنیاں ہیں۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ ایک اکاؤنٹ سے 2016 اور 2017 میں ملک مقصود نامی چپڑاسی اس کے اکاؤنٹ میں 3.7 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی اور مختلف کھاتوں سے ڈلوایا گیا، جیسے ہی ٹی ٹی کے مقدمات کی تفتیش کا آغاز ہوا تو ملک مقصود ملک سے فرار ہو گیا اور اس کے لیے نوٹسز بھی جاری ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے شخص رمضان شوگر مل کے ایک چپڑاسی محمد اسلم ہیں جن کی 18-20 ہزار تنخواہ ہے اور اس کے اکاؤنٹ 2014 سے 2017 تک 2.3 ارب روپے جمع کرایا گیا، اسی طرح رمضان شوگر مل کے کلرک اظہر عباس 2011 سے 2014 تک 1.67 ارب روپے جمع کرایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ رمضان شوگر مل کے کلرک غلام شکور کے اکاؤنٹ میں 2011 سے 2014 تک 1.57 ارب روپے جمع کرائے، رمضان شوگر ملز کے اکاؤنٹس کلرک خضر حیات کے اکاؤنٹ میں 2010 سے 2014 تک 1.42 ارب روپے جمع کرائے گئے، رمضان شوگر ملز کے کلرک اقرار حسین کے اکاؤنٹ میں 2012 سے 2015 تک 1.18 ارب روپے جمع کرائے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف کی اہلیہ، بیٹی اور داماد کے وارنٹ گرفتاری جاری
انہوں نے مزید کہا کہ اسی شوگر مل کے ایک اور کلرک محمد انور کے اکاؤنٹ میں 2011 سے 2015 تک 88 کروڑ روپے جمع کرائے گئے، پھر ان کے سیلز منیجر توقیر الدین اسلم ان کے اکاؤنٹ میں 56 کروڑ روپے جمع کرائے گئے، شریف گروپ کے ڈیٹا اینٹری آپریٹر تنویر الحق کے اکاؤنٹ میں 2012 سے 2013 تک 51 کروڑ روپے جمع کرائے گئے۔
معاون خصوصی نے بتایا کہ رمضان شوگر مل کے ایک اور اکاؤنٹ کلرک کاشف مجید کے اکاؤنٹ میں 46 کروڑ روپے جمع کرائے گئے اور رمضان شوگر مل کے چپڑاسی گلزار احمد خان اس کے اکاؤنٹ میں 2012 سے 2017 تک 42 کروڑ روپے جمع کرائے اور یہ اس لیے دلچسپ ہے کیونکہ یہ ناصرف ان کی مل میں چپڑاسی تھا بلکہ 2015 میں فوت بھی ہو گیا تھا، لیکن اس کے فوت ہونے کے باوجود یہ اکاؤنٹ چلایا جاتا رہا، اس میں پیسے جمع ہوتے رہے، نکلوائے جاتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی اور بینکنگ نظام پر کڑی نظر رکھنے کے لیے بنائے گئے قوانین کی شدید مخالفت کیوں کی گئی کیونکہ ان دنوں ممکن تھا کہ بینک کے ساتھ ایک مرے ہوئے شخص کا بھی اکاؤنٹ چلا لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آخر میں ایک شخص مسرور انور ہے جو نیب کی تحویل میں ہے، یہ ان کا بااعتماد کیش بوائے تھا، اس کے نام پر بھی ایک فرنٹ اکاؤنٹ کھولا گیا جس میں 23 کروڑ روپے جمع کرائے، ان تمام کم تنخواہ والے ملازمین کو ذاتی طور پر سلمان شہباز اور نیب کی حراست میں موجود چیف فنانشل آفیسر محمد عثمان چلاتے تھے۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی سے منظور شدہ انسداد منی لانڈرنگ سمیت دو بل سینیٹ میں مسترد
شہزاد اکبر نے کہا کہ دونوں ہی کاموں میں طریقہ واردات ایک جیسا تھا جس کے تحت یہ ان کے نام کے اکاؤنٹ کھول کر ان سے چیک بک لے لیتے تھے اور یہی اسے چلاتے تھے اور اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ یہ 22 ارب روپے کاروبار کے پیسے نہیں تھے، یہ چینی کے پیسے نہیں تھے، ان اکاؤنٹس کا فرانزک کیا گیا ہے اور اس میں سے صرف تین ارب روپے کا شاید شوگر کے کاروبار سے کوئی تعلق ہو، بقیہ رقم کا کسی بھی طریقے سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ پیسے کسی ٹھیکیدار، سیاستدان یا کاروباری شخصیت سے لیے گئے۔
انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آپ جرائم پیشہ لوگوں کی سربراہی کرتے تھے، ان کے غلط کاموں کو تحفظ فراہم کرتے تھے اور پیسے لیتے تھے یا کسی کاروباری شخص کو بلیک میل کر کے پیسے لیتے تھے لیکن ہماری تفتیش میں ایک شخص ایسا بھی آیا جس نے قبول کیا کہ ایک چیک اس نے خود وزیر اعلیٰ ہاؤس میں شہباز شریف کو جا کر دیا کیونکہ جب اس چیک کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے اس بارے میں اقرار کیا البتہ اپنے نام کے تحفظ کی وجہ سے وہ اپنا نام منظر عام پر نہیں لانا چاہتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بینک ملازمین کو ساتھ ملا کر یکساں بینکنگ کا نظام کھڑا کیا گیا اور وہ یہی ہے کہ قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھنا اور مخصوص بینکوں کی برانچوں کے ساتھ مل کر یہ نیٹ ورک بنانا ہے کیونکہ جب آپ غلط طریقوں سے کمائی گئی رقم کو گھماتے ہیں تو آپ بلیک کے پیسے کو وائٹ کر رہے ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 7 ارب روپے 2010 سے 2018 تک ان کمپنیوں میں ڈالے گئے، چھ جعلی کمپنیاں ہیں، اتنی جعل سازی ہوئی ہے کہ نہ ہی یہ کمپنیاں سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے رجسٹر ہیں، نہ ہی یہ ایف بی آر سے رجسٹر ہیں، صرف لیٹر ہیڈ پر ان کمپنیوں کے اکاؤنٹس کھل جاتے ہیں اور پیسہ خوردبرد کر کے ان اکاؤنٹس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 'انسداد منی لانڈرنگ بل کے بعد بغیرلائسنس والے منی چینجرز غائب ہوگئے'
ان کا کہنا تھا کہ بینک سے ہر ٹرانزیکشن 20 لاکھ سے کم کی ہوئی کیونکہ اسٹیٹ بینک کے تحت اس سے زائد کی ٹرانزیکشن کی رپورٹ طلب کی جاتی ہے اور انتہائی منظم طریقے سے انجام دی گئی۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں کا احوال ہے اور وہ اس وقت میں نیب کی تفتیش میں انتہائی اضطراب کی حالت میں ہیں کیونکہ ایک طرف سے تو ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب بھتیجی نے ان کی جماعت ہتھیا لی حالانکہ آپ اتنے عرصے سے کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے شہباز شریف نے تین سوال کیے کہ کیا آپ مسرور انور اور شعیب قمر کو جنہیں جانتے، یہ دونوں کیش بوائز نیب کی حراست میں ہیں اور ان کے ہاتھوں اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں۔
انہوں نے شہباز شریف سے دوسرا سوال کیا کہ آپ اپنا دور یاد کریں آپ اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہتے تھے تو کیا آپ کو اپنے خاندان کا نہیں پتا، اپنے کاروبار کا نہیں پتا، آپ کے اکاؤنٹ میں کون اور کیوں پیسے جمع کرا جاتا ہے، جب آپ نے اپنی زوجات کے لیے مکان، دکان اور گاڑی لینی ہوتی تھیں تو کہاں سے پیسے آ جاتے تھے، کیا آپ کو ان چیزوں کا علم نہیں تھا۔
معاون خصوصی نے کہا کہ آپ نے لندن میں چار فلیٹ کیسے بنائے، ابھی تک آپ اس کا جواب نہیں دے سکے، آپ نے خود کہا کہ آپ کے کوئی ذرائع آمدن نہیں ہیں تو پھر آپ نے یہ فلیٹ کیسے بنائے؟
انہوں نے کہا کہ میں آج سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ کو نہیں پتا کہ لندن میں درجن سے زائد آپ کے اہلخانہ اپنا گزر بسر کن پیسوں سے کر رہے ہیں، ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں، وہ لندن میں جس مکان میں رہ رہے ہیں اس کا کرایہ کہاں سے دیتے ہیں، اگر کرایہ نہیں دیتے تو ان مکانات و محلات کی ملکیت کس کی ہے۔
مزید پڑھیں: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق تین بل منظور، اپوزیشن کا احتجاج
شہزاد اکبر نے کہا کہ دوسرا اہم سوال آپ سب کو ان سے کرنا چاہیے کہ یہ اتنے عرصے سے لندن میں مقیم کیسے ہیں، اگر آپ وزٹ ویزے پر ہیں تو زیادہ سے زیادہ قیام کی مدت 180 دن ہوتی ہے، 6 ماہ سے زیادہ آپ وزٹ ویزے پر نہیں رہ سکتے، شہباز شریف صاحب کیا آپ کا سارا خاندان برطانیہ کی شہریت حاصل کر چکا ہے؟ کیونکہ اور تو کوئی طریقہ نہیں ہے، آپ کا خاندان وہاں کس قانونی حیثیت میں رہ رہا ہے یا آپ کے خاندان سے وہاں کی حکومتیں کوئی خاص رویہ رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی بھی احتجاج یا سیاسی چیز کو نہیں روکنا چاہتے، بطور مہذب معاشرہ آپ یہ نہیں چاہتے کہ آپ کا آزادی حق رائے سلب ہو لیکن اس کے لیے سب کو ذمے داری کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے جلسے کے بعد اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ مرض کی کیا صورتحال ہے کیونکہ جلسے میں گرد و نواح کے لوگ بھی آئیں گے لہٰذا یہ دیکھنا ہو گا کہ اس سے وبا کا پھیلاؤ ہوتا ہے اور اگر ہو گا تو پنجاب حکومت کو لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑے گا، آپ کو ایریاز کے لاک ڈاؤن کرنا پڑیں گے اور آنے والے دنوں میں اگر کوئی ہاٹ اسپاٹ بنتے ہیں تو پنجاب میں بھی اسمارٹ لاک ڈاؤن ہو سکتا ہے۔