دنیا

آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین سیز فائر کا معاہدہ چند منٹ بھی برقرار نہ رہ سکا

فریقین نے سیز فائر پر آمادگی کا اظہار کیا لیکن چند منٹ بعد ہی دونوں ممالک کی فورسز نے نئے حملوں کے الزامات عائد کردیے۔

آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین متنازع خطہ نیگورنو-کاراباخ میں جنگ بندی کا معاہدہ چند منٹ بھی برقرار نہ رہ سکا۔

غیرملکی خبررساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔

روس میں 11 گھنٹے کے مذاکرات کے بعد دونوں فریقین نے سیز فائر پر آمادگی کا اظہار کیا لیکن محض چند منٹ بعد ہی آرمینیا اور آذر بائیجان کی فورسز نے نئے حملوں کے الزامات عائد کردیے۔

واضح رہےکہ اس سے قبل آرمینیا اور آذربائیجان نے دو ہفتوں تک شدید جھڑپوں کے بعد نیگورنو-کاراباخ کے خطے میں سیز فائر کے قیام اور بامعنی مذاکرات پر اتفاق کر لیا تھا۔

ان جھڑپوں کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے اور علاقائی طاقتوں ترکی اور روس کے درمیان خطے میں بڑے پیمانے پر جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کا نگورنو-کاراباخ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ

ان مذاکرات میں ثالث کا کردار روس نے ادا کیا اور 11 گھنٹے تک آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جاری رہے والے مذاکرات کے بعد روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروو نے کہا تھا کہ دونوں فریقین نے انسانی بنیادوں پر 10 اکتوبر کو 12بجے سے سیز فائر پر اتفاق کیا ہے۔

البتہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ فوری طور پر سیز فائر کے قیام کا یہ فیصلہ ماسکو کے دوپہر 12 بجے سے ہو گا یا پھر نیگورنو-کاراباخ کے مقامی وقت کے مطابق اس پر عمل کیا جائے گا۔

لیوروو نے بیان پڑھ کر سنایا کہ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کی جانب سے ثالثی کے نتیجے میں ہونے والے اس سیز فائر کے بعد دونوں فریقین آپس میں لاشوں اور قیدیوں کا تبادلہ کریں گے جبکہ دونوں فریقین نے سیز فائر کے لیے الگ الگ ٹھوس اقدامات پر اتفاق کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آذربائیجان اور آرمینیا نے خطے کے تنازع کے پرامن حل کے لیے مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آذربائیجان اور آرمینیا بامعنی مذاکرات شروع کر رہے ہیں جس کا مقصد جلد از جلد پرامن حل ڈھونڈنا ہے اور ان مذاکرات میں روس، فرانس اور امریکا ثالث کا کردار ادا کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: آذربائیجان، آرمینیا کے درمیان ثالثی کی پہلی کوشش، لڑائی بدستور جاری

آزبائیجان میں آرمینیائی نسل کے باشندوں کے علاقے نیگورنو-کاراباخ میں ہونے والی اس لڑائی میں اب تک 400 سے زائد افراد اپنی جانوں سے محروم ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں نقل مکانی کر چکے ہیں۔

1994 میں سیز فائر کے بعد نیگورنو-کاراباخ کی حیثیت کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا اور گزشتہ ماہ اس علاقے میں جھڑپوں کا آغاز ہوا تھا جس میں دونوں فریقین ایک دوسرے پر جھڑپوں کا آغاز کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔

متعدد مرتبہ اس ٹوٹے ہوئے علاقے کو دوبارہ واپس لینے کا عزم ظاہر کرنے والے آذربائیجان کے صدر الہام الیو نے کہا تھا کہ یہ مذاکرات آرمینیا کے لیے تاریخی موقع ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم آرمینیا کو تنازع کے پرامن حل کا ایک موقع فراہم کر رہے ہیں، یہ آخری موقع ہے۔

آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشنیان نے کہا کہ وہ بین الاقوامی ثالثوں کے زیر سایہ امن عمل کی بحالی کے لیے تیار ہیں۔

بھاری جھڑپوں کا سلسلہ جمعہ کو بھی جاری رہا جس میں دونوں جانب سے مزید ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی تاہم بعد میں روس کے صدر ولادمیر پیوٹن نے ماسکو میں ملاقات کا اعلان کرتے ہوئے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی درخواست کی۔

مزید پڑھیں: آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان شدید لڑائی، ہلاکتیں 240 سے زائد ہوگئیں

آرمینیا کی وزارت دفاع کے ترجمان کے مطابق ماسکو میں مذاکرات کے باوجود جمعہ کو جھڑپوں اور لڑائی کا سلسلہ جاری ررہا۔

واضح رہے کہ نیگورنو-کاراباخ کو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن 1994 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے اختتام کے بعد سے اس کا حکومتی انتظام آرمینیائی نسل کے مقامی افراد کے پاس ہے۔

حالیہ برسوں میں نیگورنو-کاراباخ پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ہونے والی یہ سخت ترین لڑائی ہے جس میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پُرتشدد کارروائیوں کے الزامات عائد کیے ہیں۔

روس کا آرمینیا میں ایک فوجی اڈہ ہے لیکن اس کے آذربائیجان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ روس نے اس تنازع میں مرکزی ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔

اس علاقے نے آزادی کا اعلان کیا تھا لیکن اسے آرمینیا سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا تھا اور بین الاقوامی برادری نے اسے آذربائیجان کا حصہ ہی قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نگورنو کاراباخ میں جنگ بندی پر بات کرنے کو تیار ہیں، آرمینیا

اس تنازع کے آغاز کے بعد خطے کی طاقتوں روس اور ترکی کے درمیان جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا کیونکہ روس کا آرمینیا سے فوجی معاہدہ ہے جبکہ آذربائیجان کو ترکی غیرمشروط حمایت حاصل ہے۔

اس تنازع کے خاتمے کی امید اس وقت پیدا ہوئی جب روسی صدر دلادمیر پیوٹن نے دونوں فریقین کو ماسکو میں مذاکرات کی دعوت دی اور دونوں ملکوں نے اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے اپنے وزرائے خارجہ مذاکرات کے لیے بھیجے۔

پیوٹن کے اعلان سے کچھ دیر قبل روس، امریکا اور فرانس نے جنیوا میں اس کشیدگی اور طول پکڑتے تنازع کے حل کے لیے کوششیں شروع کردیں لیکن اس مذاکرات کو آرمینیا نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

تنازع کے آغاز کے بعد سے دونوں فریقین ایک دوسرے پر شہری آبادی پر بمباری اور شہری علاقوں سمیت مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے کے الزامات عائد کر چکے ہیں۔

آربائیجان کے کئی گاؤں اور اسٹیپن کرٹ کے علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے جس میں درجنوں عمارتیں بمباری کے نتیجے میں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں جبکہ جمعرات کو آرمینیا نے آذربائیجان پر ملک کے سب سے تاریخی اور مقدس چرچ کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا تھا۔

مزید پڑھیں: گوانتانامو بے کے سابق کمانڈر کو 2 سال قید کی سزا

اس تنازع کے بعد نیگورنو-کاراباخ سے ایک لاکھ 40ہزار افراد نے نقل مکانی کی جس میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے جبکجہ اس دوران سینکڑوں اموات بھی ہوئیں۔

آرمینیا کا کہنا ہے کہ ان کے 350 فوجی اس تنازع میں مارے جا چکے ہیں البتہ آذربائیجان نے کوئی اعداد وشمار جاری نہیں کیے۔

امریکی انتخابات میں ’اکتوبر سرپرائز‘ کا کھیل جانتے ہیں؟

ماڈل علیزے گبول بھی کورونا وائرس کا شکار

نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ: ناردرن کو پہلی شکست، سندھ بھی ناکامی سے دوچار