پشاور ہائیکورٹ کا غیر قانونی طور پر پاکستان لائے گئے 10 افغان بچوں کی واپسی کا حکم
پشاور ہائی کورٹ نے نوشہرہ کے مدرسے میں طالبان کی جانب سے غیر قانونی طور پر پاکستان لائے گئے 10 افغان بچوں کو قونصل خانے کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کیس کی سماعت کی اور ریمارکس میں کہا کہ ان بچوں کو کیسے یہاں لایا گیا، افغانستان سے یہاں بچوں کو لایا گیا لیکن کسی کو پتہ نہیں، ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں۔
پولیس حکام نے عدالت کو بتایا کہ افغانستان سے بچوں کو غیر قانونی طور پر لایا گیا اور اکوڑہ خٹک کے ایک مدرسے میں دینی تعلیم کے لیے کوئٹہ کے راستے نوشہرہ لایا گیا۔
یہ بھی دیکھیں: کورونا کے پاکستان اور افغانستان میں بچوں کی صحت پر سنگین اثرات
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بچوں کو غیر قانونی طور پر پاکستان لایا گیا۔
بچوں کے اردو اور پشتو نہ بول پانے کے باعث عدالت میں مترجم کو بھی لایا گیا جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ بچوں کی ذہن سازی کی گئی ہے، یہ ہر سوال کا ایک زبان ہوکر جواب دیتے ہیں۔
عدالت نے پولیس کو مدرسے کی انتظامیہ کو گرفتار کرکے ان سے تحقیقات کا حکم دیا۔
جسٹس وقار سیٹھ نے کہا کہ تحقیقات کریں کہ ان بچوں کو کیسے اور کیوں یہاں لایا گیا، معلوم کریں کہ کتنے اور افغان بچے یہاں پر مدارس میں زیر تعلیم ہیں اور ان کے پاس یہاں رہنے کی دستاویز ہے یا نہیں۔
عدالت میں افغان قونصل جنرل کے حکام بھی موجود تھے۔
مزید پڑھیں: 'افغانستان میں یومیہ 9 بچے ہلاک یا معذور ہوئے'
عدالت نے بچوں کو قونصل خانے کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کی مکمل تفصیلات جمع کرکے عدالت میں رپورٹ پیش کی جائے۔
پشاور میں افغان قونصل خانے کے عہدیدار عبدالحمید جلیلی نے ڈان نیوز کو بتایا کہ بچوں کا تعلق افغانستان کے طالبان کے زیر اثر صوبے بدخشاں سے ہے جنہیں طالبان نے پکڑ کر دینی تعلیم کے لیے غیر قانونی طور پر اکوڑہ خٹک کے ایک مدرسے بھیجا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عدالت کے احکامات پر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا۔