سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کے مرکزی ملزمان کی سزا کے خلاف اپیل
سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کیس میں سزا یافتہ مرکزی ملزمان زبیر عرف چریا اور عبدالرحمٰن عرف بھولا نے انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں اپیل دائر کردی۔
عدالت عالیہ میں دائر کی گئی اپیل میں دونوں ملزمان نے فیکٹری مالکان کو اموات کا ذمہ دار قرار دیا اور مؤقف اپنایا کہ آگ لگی تو فیکٹری کے دروازے بند تھے۔
مذکورہ اپیل میں مؤقف اپنایا گیا کہ فیکٹری کے دروازے مالکان کے حکم پر لاک کیے گئے تھے جبکہ مزدوروں کے اخراج کے لیے کوئی ہنگامی راستہ موجود نہیں تھا۔
زبیر عرف چریا اور عبدالرحمٰن عرف بھولا کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا کہ 3 منزلہ عمارت کے داخلے اور اخراج کا ایک ہی راستہ تھا، مزید یہ کہ فیکٹری کی کھڑکیوں کو آہنی سلاخوں سے پیک کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس: ایم کیو ایم کے رحمٰن بھولا، زبیر چریا کو سزائے موت، رؤف صدیقی بری
اپیل کے مطابق ہنگامی اخراج نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین جاں بحق ہوئے جبکہ متعلقہ محکموں نے بد دیانتی اور غفلت کا مظاہرہ کیا، مزید یہ کہ فیکٹری مالکان اور متعلقہ محکموں کی غفلت سے معصوم لوگ جاں بحق ہوئے۔
سزایافتہ مجرمان نے اپیل میں یہ مؤقف اپنایا کہ مالکان اور متعلقہ محکمے ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں، ابتدائی رپورٹ میں پولیس نے فیکٹری مالکان کو ہی نامزد کیا تھا جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں اصل ملزمان (فیکٹری مالکان) کو بری الذمہ قرار دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ فیکٹری مالکان نے کبھی کسی کو نامزد نہیں کیا، اے ٹی سی کا فیصلہ انصاف کے طے شدہ اصولوں کے خلاف ہے، ماتحت عدالت نے شواہد کا باریک بینی سے جائزہ لیا اور نہ ہی جوڈیشل مائنڈ اپلائی کیا۔
مذکورہ اپیل کے مطابق ٹرائل کورٹ میں واقعے سے متعلق کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی پیش نہیں کی گئی، ہم پر بھتہ مانگنے کا الزام عائد کیا گیا مگر کوئی گواہ پیش نہیں کیا گیا۔
عدالت عالیہ میں دائر اپیل میں کہا گیا کہ انسداددہشت گردی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
واضح رہے کہ 8 سال قبل 11 ستمبر 2012 میں کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں واقع علی انٹرپرائزز فیکٹری میں ہولناک آتشزدگی کے نتیجے میں وہاں کام کرنے والے مرد و خواتین سمیت 260 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
جس کے بعد یہ کیس 8 سال تک انسداد دہشت گردی عدالت میں چلا تھا، جہاں 22 ستمبر 2020 کو عدالت نے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کارکن عبدالرحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو سزائے موت سنا دی تھی جبکہ رہنما ایم کیو ایم اور اس وقت کے صوبائی وزیر صنعت و تجارت رؤف صدیقی سمیت 4 ملزمان کو بری کردیا تھا۔
عدالت نے اس وقت کے ایم کیو ایم کے بلدیہ کے سیکٹر انچارچ اور بدقسمت فیکٹری کے اس وقت کے فنشنگ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ محمد زبیر عرف چریا کو دہشت گردی مرتکب قرار دیتے ہوئے 'آتش زنی' کے ذریعے 264 افراد ( مرد و خواتین دونوں) کی موت کا سبب بننے پر ہر ایک کو موت کی سزا سنائی۔
اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے ہر مقتول کی موت کے لیے 2 لاکھ روپے کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔
ساتھ ہی جج نے دونوں کارکنان کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (اے) اور 34 کے تحت 264 افراد کے قتل پر سزائے موت بھی دی۔
عدالتی فیصلے کے مطابق فیکٹری میں موجود ورکرز/ملازمین کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے یا ان کی موت کا سبب بن سکنے کے جرم میں حصہ لینے پر رحمٰن بھولا اور زبیر چریا کو عمر قید کی سزا بھی دی گئی تھی۔
اس کے علاوہ ایک کیو ایم کے دونوں کارکنوں کو 60 افراد (زخمی ہونے والے مرد و خواتین) کو قتل کرنے کی کوشش پر ہر ایک 10 سال قید کی سزا بھی سنائی اور ان پر ایک، ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا یا اس کی عدم ادائیگی کی صورت میں 6 ماہ مزید قید کاٹنے کا حکم دیا تھا۔
مزید سزا میں 60 افراد کو زخمی کرنے پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت عمر قید کی سزا بھی سنائی اور 2، 2 لاکھ روپے ادا کرنے کا حکم بھی دیا یا دوسری صورت میں 6 ماہ کی اضافی سزا کاٹنا ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس: کب کیا ہوا؟
ساتھ ہی عدالت نے عوام، فیکٹری مالکان، ورکرز اور ملازمین کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے اور انہیں فیکٹری کی عمارت سے باہر آنے سے روکنے پر بھی عمر قید کی سزا دی، اسی طرح کی سزا انہیں فیکٹری کو تباہ کرنے پر بھی دی گئی تھی۔
اس کے علاوہ عدالت نے رحمٰن بھولا اور زبیر چریا کو فیکٹری مالکان کو دھمکیاں دینے اور بھتہ مانگنے پر ہر ایک کو 15 سال کی مشترکہ سزا بھی سنائی جبکہ ڈھائی لاکھ روپے جرمانے کا بھی حکم دیا تھا۔
مزید برآں اے ٹی سی نے جرم میں سہولت فراہم کرنے پر 4 چوکیداروں شاہ رخ، فضل احمد، ارشد محمود اور علی محمد کو بھی عمر قید کی سزا سنائی اور 4،4 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
اس کے علاوہ انہیں ہر متاثرہ خاندان کو 27 لاکھ 77 ہزار 353 روپے دیت ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا