دسمبر، جنوری میں جھاڑو پھرے گی، جیلیں پررونق ہوں گی، شیخ رشید
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ میں اپنے بیان پر قائم ہوں کہ 31 دسمبر تک (ن) سے (ش) نکلے گی، دسمبر اور جنوری میں جھاڑو پھرے گی اور تمام بدعنوان جیلوں میں ہوں گے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہا کہ آج مریم نواز نے اپنی ساری تقریر عدلیہ، نیب، عاصم سلیم باجوہ اور شیخ رشید کے خلاف کی، جو فیصلہ ان کے حق میں ہو وہ قبول ہے جو ان کے خلاف ہو وہ قبول نہیں، میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو ان کا ایجنڈا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پوری پریس کانفرنس میں مریم نواز نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے چچا شہباز شریف کی ضمانت کیوں ختم ہوئی، جون سے وہ جس ضمانت میں تھے آج ججوں نے شہادتیں اور کیس دیکھ کر منسوخ کیا ہے۔
مزید پڑھیں:شیخ رشید نے نواز شریف سے 10 سوالوں کا جواب مانگ لیا
وزیر ریلوے نے کہا کہ ابھی تک نواز شریف اور مریم نواز نے میرے 10 سوالوں کا جواب نہیں دیا اور کہتی ہیں کہ یہ لغو ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے حالانکہ یہ قومی سلامتی کے سوال ہیں۔
شیخ رشید نے ایک مرتبہ پھر اپنے گزشتہ پریس کانفرنس میں کیے گئے دس سوالوں کو دہرایا اور مطالبہ کیا کہ اس کا جواب دیں۔
خیال رہے کہ دو روز قبل لاہور میں پریس کانفرنس کےدوران شیخ رشید نے سابق وزیراعظم نواز شریف نے دس سوال کیے تھے۔
شیخ رشید نے 10 سوال دہرائے۔
انہوں نے نواز شریف سے پوچھا کہ 'آپ نے اسامہ بن لادن سے کتنی ملاقاتیںکیں اور کتنے پیسے بطور چندہ وصول کیے؟'
شیخ رشید نے پوچھا کہ 'اجمل قصاب کے گھر کا پتا خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کوکس نے دیا؟ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے بھارت کو اجمل قصاب کا ڈیٹا فراہمکیا'۔
وفاقی وزیر نے پوچھا کہ 'دشمن ملک کے سربراہ مودی کو رائیونڈ میں بلاکرکیا باتیں کیں؟'
انہوں نے پوچھا کہ 'دشمن ملک کے سربراہ مودی کو ملک سے باہر فون کیوںکرتے تھے، کیا پاکستان کے اندر آپ کو خطرات تھے کہ آپ کی باتیں ملک کیسلامتی کے خلاف ہوں گی وہ سامنے آجائیں گی، آپ نے جتنی کالز نریندر مودیکو کیں، اس کی تعداد اور ایجنڈا بتائیں'۔
شیخ رشید نے پوچھا کہ 'لاہور سے حملہ آوروں کی بسیں اسلام آباد لے جاکرچیف جسٹس سجاد شاہ کی موجودگی میں سپریم کورٹ پاکستان پر یلغار کس نےکی، کس نے پنجاب ہاؤس میں صبح ناشتہ کروا کر سپریم کورٹ پر حملہ کروایا؟
انہوں نے پوچھا کہ 'بیماری کا بہانہ کرکے آپ ملک سے گئے، ووٹ کی باتکرتے ہیں تو کورٹ کی بات کیوں نہیں کرتے؟ وہ کونسا سیاست دان ہے، اس ملکمیں کہ کورٹ اسے طلب کرتی ہے اور وہ بیماری کا بہانہ بناتا ہے کہ کوروناوائرس تھا، تاہم جب پاکستان کی سلامتی اور اداروں کے خلاف تقریر کرنی ہوتو ایک ایک گھنٹہ خطاب کرتے ہیں'۔
انہوں نے پوچھا کہ 'ڈان لیکس' کے پیچھے کون تھا؟ آج اعتراف کرلیا توپہلے انکار کیوں کیا تھا۔
شیخ رشید نے پوچھا کہ '2013 کے انتخابات میں کتنا پیسا خرچ کیا اور سیفالرحمٰن کے ذریعے قطر سے آپ کو کتنی رقم وصول ہوئی'
انہوں نے سوال کیا کہ نیب کی عدالت پر پتھراؤ کی منصوبہ بندی لندن سے کتنےدنوں میں ہوئی اور وہ کیمرے جنہوں نے اس فوٹیج کو کور کیا اسے روکنے کےلیے کتنی کوششیں کیں۔
شیخ رشید نے آخری سوال کیا کہ 'بینظیر کی کردار کشی کے لیے پیٹر گیلبرتھکے جعلی دستخط سے حسین حقانی کے ذریعے خط کس نے جاری کیا'۔
انہوں نے کہا کہ آج میں مزید الزامات لگاؤں گا، انہوں نے جسٹس ثاقب نثار کا مذاق اڑایا، ثاقب نثار ان کو برا لگتا ہے انہیں جسٹس قیوم اور جسٹس تارڑ پسند ہیں، پاناما کا فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیا، موجودہ چیف جسٹس گلزار، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس شیخ عظمت نے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سارے جج پاکستان کی عدلیہ کے عظیم ستون ہیں اور پوری قوم ان کے کردار، ذہنی بلندی، وکالت اور قانون پر دسترس کو مانتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نواز شریف نے باقی کی زندگی لندن میں گزارنے کا فیصلہ کرلیا ہے، شیخ رشید
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آج عدالت نے آصف زرداری اور فریال تالپور پر بھی فرد جرم عائد کی، وہ فیصلہ لے کر گھر چلے گئے جبکہ ضمانت منسوخ ہونے پر مریم نواز نے جو باتیں کی ہیں اس میں کوئی بات ایسی نہیں ہے کہ ملکی معاملات کے لیے جواب دینے کے قابل ہو۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے خلاف جو انتشار پھیلانا چاہتے ہیں اور آج جو نعرہ بازی کی گئی ہے، پاک فوج کے خلاف جو نعرے بازی کی گئی ہے، نعرے لگانے اور لگوانے والے دونوں پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی بات پر قائم ہوں کہ (ش) نکلے گی اور میں نے 31 دسمبر اور جنوری کی بات کی ہے، میں اپنی بات پر قائم ہوں (ش) نکلے گی، ابھی آپ کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے کس (ش) کا ذکر کر رہا ہوں، جلد آپ کو سمجھ آجائے گی، اس وقت قوم کو بتاؤں گا کہ میرا سیاسی تجزیہ غلط نہیں تھا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 'میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں آج پھر کہتا ہوں کہ دسمبر، جنوری میں جھاڑو پھرجائے گی اور وہ تمام لوگ جو چوری ڈکیتی، منی لانڈرنگ، کرپشن، بد دیانتی، چور بازاری اور ملکی سلامتی کے خلاف سازشوں میں شامل ہیں وہ جیلوں کی زینت بنیں گے اور جیلیں پر رونق ہوں گی'۔
انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے پچھلے 24 سال سے ملک میں دہشت گردی، فرقہ واریت، لسانیت کے خلاف جو مصروف جنگ گزاری ہے آج مریم نواز قومی اداروں کو متنازع قرار دیتی ہے اور یہی نہیں یہ پاک - چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے دشمن ہیں۔
اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس سی پیک کے خلاف یہ پروپیگنڈا کر رہے تھے آج وہ بین الاقوامی سازش کا نشانہ بن رہے ہیں اور سی پیک کی صورت حال کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بیرونی اشاروں پر اندرونی سیکیورٹی کو خراب کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی صورت پاکستان کے عدم استحکام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف بہانے بنا کر لندن گئے، وہ امام خمینی نہیں ہیں کہ لندن میں بیٹھ کر امام خمینی نہیں بن سکتے، یہ بزدلوں کا ٹولہ اور جیل کے بھگوڑے ہیں اور اپنے آپ کو چمپیئن بنانا چاہتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے دو سال ان کے 30 سال کا گند صاف کرتے ہوئے گزر گئے، جب ہماری معیشت بہتر ہونے لگی اور ہم آگے بڑھنے لگے تو ان کو اے پی سی یاد آگئی ہے۔
شیخ رشید نے کہا کہ اب تو مولانا فضل الرحمٰن کا موسیٰ خان بھی پکڑا گیا ہے، ابھی تو موسیٰ خان بھی بڑے بیان دے رہا ہے۔
اپوزیشن کو چیلنج کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیلنج کرتا ہوں اے پی سی نے جہاں جلسہ کیا وہاں اس ہفتے میں بھی جلسہ کروں گا، جلسہ تو میڈیا نے کرنا ہے، وہ وقت گیا 5 ہزار کو 50 ہزار دکھاتے تھے، اب بات تو میڈیا پہنچاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ استعفیٰ نہیں دیں گے، استعفیٰ دیں گے تو عمران خان نے کہا ہے کہ ضمنی انتخاب کرائے گیں، دھرنا دیں انہیں پتہ چل جائے گا، اسپیکر اور عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں، انہیں پتہ چل جائے گا لیکن یہ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ استعفوں کا شوق پورا کریں، ہم منتظر ہیں کیونکہ یہ چاہتے ہیں مارچ میں سینیٹ کے انتخابات تک خرابی پیدا کی جائے اور سینیٹ کے انتخابات کے بعد عمران خان اللہ کے علاوہ کسی کا محتاج نہیں ہوگا۔
شیخ رشید احمد نے کہا کہ اگر جمہوریت کو نقصان پہنچا تو اس کے ذمہ دار یہ لوگ ہوں گے کیونکہ یہ نہیں چاہتے کہ عمران خان کی مستحکم حکومت کو لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے دسترس حاصل ہو۔