پاکستان

50 پائلٹس، 5 عہدیداروں کے خلاف مجرمانہ تحقیقات کا آغاز

تحقیقات پاکستان کی جانب سے درجنوں پائلٹس کو مشکوک قابلیت پر گراؤنڈ کیے جانے کے تقریباً 3 ماہ بعد کی جارہی ہیں، رپورٹ
|

اسلام آباد: پاکستان نے 50 پائلٹس اور انہیں لائسنس کے حصول کے لیے جعلی اسناد میں مبینہ طور پر ملوث سول ایوی ایشن کے 5 عہدیداروں کے خلاف مجرمانہ تفتیش کا آغاز کردیا۔

یہ پڑھیں: پائلٹس کو جاری کردہ تمام لائسنس درست ہیں، سی اے اے

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں حکومتی ذرائع اور کابینہ اجلاس کے نکات کے حوالے سے کہا گیا کہ مذکورہ تحقیقات پاکستان کی جانب سے درجنوں پائلٹس کو مشکوک قابلیت پر گراؤنڈ کیے جانے کے تقریباً 3 ماہ بعد کی جارہی ہیں، ایسے وقت پر کہ جب سول ایوی ایشن ریگولیٹر نے کہا تھا کہ وہ اس اسکینڈل کی تفصیلی تحقیقات کرے گا۔

کابینہ کے منگل کے روز ہونے والے اجلاس کے نکات اور ذرائع کے مطابق حکومت کے احکامات پر وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) معاملے کی مجرمانہ تفتیش کا آغاز کرچکا ہے۔

ذرائع نے شناخت ظاہر کرنے سے انکار کیا کیوں کہ یہ نجی گفتگو تھی، ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے جن پائلٹس کی تحقیقات کررہی تھی ان میں سے ایک پائلٹ کو 'مبینہ بدعنوانی، خلاف ورزیوں، پرواز کے عملے کو لائسنس جاری کرنے میں بددیانتی' پر اظہار وجوہ کا نوٹس بھیجا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: اسکرونٹی کے بعد سی اے اے نے 193 پائلٹس کو نوٹسز جاری کردیے

ایف آئی اے کے سینئر عہدیدار منیر احمد شیخ نے اس بات کی تصدیق کی کہ تحقیقات جاری ہیں تاہم انہوں نے مزید تفصیلات بتانے سے انکار کیا۔

دوسری جانب وزارت ہوا بازی نے اس وقت تک اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کردیا کہ جب تک حکومت اس معاملے کو خود عوام کے سامنے نہ لے آئے۔

ذرائع نے بتایا کہ وزارت نے منگل کے روز وزیراعظم کی سربراہی میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں اپنی انکوائری کے نتائج جمع کروائے، اس کے علاوہ مزید 32 پائلٹس کو ایک سال کے لیے معطل کردیا گیا ہے۔

پائلٹس کے 'مشکوک' لائسنسز کا معاملہ

خیال رہے کہ پائلٹس کے مشکوک یا جعلی لائسنسز کے معاملے کا آغاز 24 جون کو اس وقت ہوا جب قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو 'مشکوک' قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔

غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔

جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔

29 جون کو ویتنام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے عالمی ریگولیٹرز کی جانب سے پائلٹس کے ’مشکوک لائسنس‘ رکھنے کی تشویش پر مقامی ایئرلائنز کے لیے تمام پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کردیا تھا۔

اگلے روزیورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کا اجازت نامہ 6 ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کردیا تھا جس پر 3 جولائی سے اطلاق ہوا۔

اسی روز اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) نے پاکستانی ایئرلائن کو اپنی 'تجویز کردہ فہرست' سے ہٹا دیا تھا۔

جس کے بعد یکم جولائی کو برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنے 3 ایئرپورٹس سے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا جبکہ متحدہ عرب امارت نے بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے مختلف فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس اور انجینئرز کے کوائف کی تصدیق کی درخواست کی تھی۔

اس کے بعد 3 جولائی کو ملائشیا کے ایوی ایشن ریگولیٹر نے پاکستانی لائسنس رکھنے والے اور مقامی ایئر لائنز میں ملازمت کرنے والے پائلٹس کو عارضی طور پر معطل کردیا تھا۔

جس کے بعد 4 جولائی کو وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ انکوائری مکمل ہونے کے بعد مزید 30 ’مشتبہ لائسنس' کے حامل پائلٹس کو اظہار وجوہ کے نوٹسز بھیجے جاچکے ہیں۔

7 جولائی کو یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے 32 رکن ممالک کو 'پاکستان میں جاری کردہ پائلٹ لائسنسز سے متعلق مبینہ فراڈ' کے حوالے سے خط لکھا اور ان پائلٹس کو فلائٹ آپریشن سے روکنے کی سفارش کی تھی۔

اسی روز سول ایوی ایشن اتھارٹی نے 'مشکوک' لائسنسز سے متعلق انکوائریاں مکمل ہونے کے بعد پی آئی اے کے 34 پائلٹس کے کمرشل فلائنگ لائسنسز معطل کردیے تھے۔

بعدازاں 9 جولائی کو امریکا نے بھی پاکستانیوں کی واپسی کے لیے قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی خصوصی پروازوں کے اجازت نامے کو منسوخ کردیا تھا۔

10 جولائی کو ایوی ایشن ڈویژن نے مختلف ممالک کی ایئرلائنز میں کام کرنے والے 95 فیصد پائلٹس کے لائسنز کلیئر کردیے تھے جبکہ باقی کی تصدیق کا عمل آئندہ ہفتے مکمل کرنے سے متعلق آگاہ کیا تھا۔

بعدازاں 28 جولائی کو ایوی ایشن ڈویژن نے 194 معطل پائلٹس کے کیسز کی تحقیقات کے لیے ایک 5 رکنی کمیٹی قائم کردی تھی۔

9 اگست کو اکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے 262 پائلٹس کی اسکروٹنی کا عمل مکمل کرنے کے بعد ’مشکوک‘ فضائی لائسنس کے حامل 193 مشتبہ پائلٹس کو نوٹسز جاری کردیے تھے۔

15 ستمبر کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں مزید 22 پائلٹوں کے لائسنس منسوخ کرنے کی منظوری دی گئی اس کے علاوہ سول ایوی ایشن کی جانب سے 32 پائلٹوں کے لائسنس بھی آئندہ ایک سال تک کے لیے معطل کردیے گئے۔