پاکستان

نواز شریف کی زندگی اور صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، مسلم لیگ(ن)

نواز شریف سے درخواست کرتے ہیں کہ معالجین کے مشورے کے مطابق اپنا علاج مکمل کرائیں، احسن اقبال

مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنماؤں نے کہا ہے کہ ان کے قائد میاں محمد نواز شریف کی زندگی اور صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔

لاہور میں مسلم لیگ کے رہنماؤں نے میاں محمد نواز شریف کی صحت کے حوالے سے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں احسن اقبال، خواجہ آصف، رانا ثنااللہ، شاہد خاقان عباسی اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا نواز شریف کو 10ستمبر سے قبل 'سرنڈر' کرنے کا حکم

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے کروڑوں ورکرز اور اس ملک کا اثاثہ ہیں، ان کی زندگی اور صحت پر یاست کی جاسکتی ہے نہ کوئی سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے، لہٰذا ہم ان سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ اپنے علاج کو مکمل کروائیں اور جب ان کے معالجین اس بات کا فیصلہ کریں کہ وہ جانے کے لیے مکمل فٹ ہیں تو پھر وہ ایک لمحہ تاخیر کیے بغیر وطن واپس آ جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں توقع ہے پاکستان کی عدلیہ جس نے ان کی صحت کے پیش نظر انہیں علاج کے لیے اجازت دی تھی اور جب انہیں اجازت دی گئی اس کے بعد پوری دنیا کووڈ19 کی لپیٹ میں آ گئی، ہر ملک میں کئی ماہ ہسپتال بند رہے اور علاج کی سہولتیں معطل رہیں، اس لیے صحت اور علاج کی سہولتوں میں جو تاخیر ہوئی اس سے صرف نواز شریف متاثر نہیں ہوئے بلکہ ہر مریض کسی نہ کسی درجے میں متاثر ہوا ہے، لہٰذا ہمیں توقع ہے کہ ان کی صحت کی صورتحال اور معالجین کے جائزے کی روشنی میں عدلیہ بھی ان چیزوں کو ملحوظ رکھے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف وہ لیڈر ہے جس نے ایسی مثال قائم کی تھی جس کی پاکستان کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی، وہ اپنی بیمار اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر قانون کی عملداری یقینی بنانے کے لیے وطن واپس لوٹے تھے لہٰذا ان کے حوالے سے کسی قسم کی بحث کرنا یا چھیڑنا ان کی اس اعلیٰ مثال کی توہین اور انسانیت کی بھی تذلیل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف علاج کیلئے ایئر ایمبولینس کے ذریعے لندن پہنچ گئے

احسن اقبال نے کہا کہ نواز شریف کے علاج سے ان کے مقدمات کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور ہم سب کی یہ متفقہ رائے ہے کہ وہ اپنا علاج مکمل کروا کر ڈاکٹرز کی ہدایت کی روشنی میں واپس تشریف لائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے اور لوگوں کی زندگی کا فیصلہ ٹاک شوز میں بیٹھ کر یا لچھے دار بیانات سے نہیں ہو سکتا، اس سے پہلے یہ لوگ بیگم کلثوم نواز کی صحت کے حوالے سے بھی غیرذمے دارانہ بیانات دیتے تھے اور بعد میں اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوئے۔

ایک سوال کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت علاج کے لیے ملی تھی تاکہ وہ اپنا علاج مکمل کرائیں لہٰذا جب ان کے معالجین فیصلہ کریں گے کہ وہ صحتیاب ہو گئے ہیں اور وہ واپس جاسکتے ہیں تب وہ واپس آئیں گے، باقی قانونی پہلوؤں پر ہماری لیگل ٹیم لائحہ عمل طے کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس کے حوالے سے رہبر کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں تمام پارٹیز نے مل کر 20ستمبر کو آل پارٹیز کانفرنس بلانے پر اتفاق کیا ہے اور اس کے ایجنڈے پر مسلم لیگ (ن) کی تجاویز پر اجلاس اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بلایا جائے گا اور وہاں پارٹی مشاورت کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کی صحت اور علاج کے حوالے سے موجودہ صورتحال پر رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی ہیں اور تمام تر تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈاکٹرز نے نواز شریف کے خون کی ٹیسٹ رپورٹس غیرتسلی بخش قرار دے دیں

احسن اقبال نے کہا کہ 'عدالت نے ان کو اجازت کسی کانفرنس یا سیاحتی دورے کے لیے نہیں دی تھی، خصوصی اجازت حکومت کی طرف سے تمام تسلی کرنے کے بعد دی گئی تھی کہ انہیں سنگین جان لیوا صورتحال کا سامنا ہے اور اس پر اجازت ملی تھی جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ جیسے ہی ان کے معالجین سرٹیفکیٹ دیں گے کہ علاج مکمل ہو گیا ہے، تو وہ واپس آجائیں گے'۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے حکمران جماعت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ لوگوں کو خواب دکھا کر لائے تھے کہ 200 ارب ڈالر یہاں سے آئے گا، 3 ہزار ارب ڈالر کی کرپشن بند ہو کر یہاں سے آئے گا، ایک کروڑ نوکری اور 50لاکھ گھر آئے گا تو لوگوں کو ان کی اصلیت پتا چل جائے اور اب لوگوں کو ان کی اصلیت پتا لگ گئی ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ جو جماعت ایک نکاتی ہو وہ مسلم لیگ (ن) کی طاقت کا اندازہ نہیں لگا سکتی، پاکستان مسلم لیگ ن کا ایک قائد ہے جس کا نام نواز شریف ہے اور ان کی قیادت میں گلگت سے گوادر تک مسلم لیگ(ن) ایک چٹان کی طرح متحد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی طبیعت ناساز، نیب دفتر سے سروسز ہسپتال منتقل

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف درخواست پر نواز شریف کو 10 ستمبر کو اگلی سماعت سے قبل سرنڈر کرنے حکم دیا ہے بصورت دیگر کے ان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

نواز شریف، اہلخانہ کیخلاف ریفرنسز کا پس منظر

العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایون فیلڈ تینوں ریفرنسز 7 لاکھ 85 ہزار آف شور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کا حصہ ہیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

عدالت عظمٰی نے نواز شریف کو 28 جولائی 2017 کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

جس پر 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایون فیلڈ ویفرنس میں اس وقت سزا سنادی تھی جب وہ برطانیہ میں کلثوم نواز کی تیمارداری کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کی رپورٹ پر جس کو شک ہے وہ عدالت میں میرا سامنا کرلے، ڈاکٹر طاہر شمسی

سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا، بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔

دوسری جانب نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنادی تھی، بعدازاں ایک خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو دباؤ پر سزا سنائی،جس پر جج کو ان کے غلط فعل پر عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔

گزشتہ برس اکتوبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کے لیے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور اس میں توسیع کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم صوبائی حکومت نے ان کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کردی۔