ایران 2 'خفیہ جوہری تنصیبات' تک اقوام متحدہ کو رسائی دینے کیلئے تیار
ایران نے اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ ایک ماہ کی کشمکش کے بعد 2 سابقہ خفیہ ایٹمی تنصیبات تک رسائی دینے پر اتفاق کرلیا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق دونوں فریقین کے درمیان معاہدہ آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی کے دورہ تہران کے دوران اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے نتیجے میں ہوا۔
رافیل گروسی اور ایرانی جوہری ایجنسی کے سربراہ علی اکبر صالحی نے مشترکہ بیان میں کہا کہ 'ایران رضاکارانہ طور پر آئی اے ای اے کو ان کی جانب سے بتائے گئے 2 مقامات تک رسائی دے گا'۔
مزید پڑھیں: انٹرنیشنل اٹامک انرجی کا ایران سے جوہری مقامات تک رسائی کا مطالبہ
بیان میں کہا گیا ہے کہ 'آئی اے ای اے کو رسائی دینے کے لیے تاریخوں اور مصدقہ سرگرمیوں پر اتفاق کرلیا گیا ہے'۔
آئی اے ای اے نے کہا کہ بدلے میں ایران سے اس سے متعلق کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔
خیال رہے کہ آئی اے ای اے نے تہران اور اصفہان میں تنصیبات تک رسائی کی مہینوں تک کوشش کی، جس کے بارے میں ایران پر الزام تھا کہ وہاں غیر اعلامیہ جوہری مواد رکھا ہوا ہے اور استعمال ہو رہا ہے۔
رواں برس جون میں آئی اے ای اے نے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے قرارداد منظور کیے جانے کے بعد ایران پر دباؤ میں اضافہ کردیا تھا کہ انسپکٹرز کو ان مقامات تک رسائی کا موقع فراہم کیا جائے۔
ایران سے کہا گیا تھا کہ وہ آئی اے ای اے سے این پی ٹی سیف گارڈز ایگریمنٹ اور اضافی اقدامات پر عمل درآمد کے لیے مکمل تعاون کرے۔
بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں یہ قرارداد فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی جانب سے پیش کی گئی تھی جس کی 25 اراکین نے حمایت اور 2 نے مخالفت کی تھی، جبکہ 7 اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران عالمی جوہری معائنہ کاروں کے ساتھ تعاون کرے، یورپی ممالک
ایران نے آئی اے ای اے کی نشان دہی کے دو مقامات تک رسائی دینے سے انکار کیا تھا جس کے حوالے سے ایجنسی کو خدشہ تھا کہ وہاں حفاظتی اقدامات پر مکمل طور پر عمل نہیں کیا جارہا ہے۔
ایران ان مطالبات کو مسلسل مسترد کرتا رہا تاہم اب دونوں فریقین کے درمیان باقاعدہ معاہدہ ہوچکا ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق صدر حسن روحانی نے رافیل گروسی سے کہا کہ 'ایران پہلے کی طرح آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے'۔
یاد رہے کہ آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے 2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے پر دستخط سے کچھ روز قبل ہی ایران کا دورہ کیا تھا۔
ایران کے ساتھ اس معاہدے کو جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کا نام دیا گیا تھا، جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
عالمی طاقتوں سے معاہدے میں ایران نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کے کام کو جاری نہیں رکھے گا، جس کے جواب میں ان پر عائد بین الاقوامی پابندیاں اٹھالی گئی تھیں۔
ایران کو اپنا تیل اور گیس دنیا بھر میں کسی بھی ملک کو برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: امریکا نے ایران پر جوہری پابندیوں میں نرمی کی توسیع کردی
بعد ازاں جب امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو 2018 میں انہوں نے ایران سے معاہدہ ختم کرنا کا یکطرفہ اعلان کیا اور ایران پر معاشی پابندیاں بحال کردی تھیں۔
امریکی اقدامات کے بعد ایران کو معاشی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ اس نے جوہری سرگرمیوں کو بھی بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکا نے گزشتہ ہفتے ایران پر جے سی پی او اے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کے خلاف مزید اقدامات کرنے کی کوشش کی تھی۔
دوسری جانب معاہدے میں شامل یورپی ممالک فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے امریکی کوشش کو مسترد کردیا اور کہا کہ امریکا کو اس طرح کے اقدامات کا کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ اب وہ اس معاہدے کا فریق نہیں ہے۔