پاکستان

خواتین صحافیوں کا ’حکومت سے وابستہ لوگوں' کے آن لائن حملوں سے تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ

آن لائن حملوں کے پیش نظر صحافتی صنعت میں کام کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے، مشترکہ اعلامیہ

خواتین صحافیوں کے ایک گروپ اور تجزیہ کاروں نے تحفظ فراہم کیے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر تحریک انصاف کی حکومت کے حامی لوگوں کی جانب سے ان پر ’توہین آمیز حملے‘ کیے جارہے ہیں۔

مختلف صحافتی اداروں سے تعلق رکھنے والی 16 خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے مشترکہ بیان میں کہا کہ ’آن لائن حملوں کے پیش نظر صحافتی صنعت میں کام کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے‘۔

مزید پڑھیں: آن لائن لوگوں کو ہراساں کرنے پر خاتون کو 5 سال قید کی سزا

ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا کہ ’آن لائن ہراساں ہونے والی خواتین مختلف نظریات یا نقطہ نظر کی حامل ہیں جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کرتی ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے حکومتی پالیسیوں پر مذکورہ خواتین نے شدید تنقید کی تھی‘۔

محمل سرفراز، بے نظیر شاہ، عاصمہ شیرازی، ریما عمر اور منیزے جہانگیر ان خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں میں شامل ہیں جنہوں نے دستاویز پر دستخط کیے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ حکومتی حکام نے آن لائن حملوں کے لیے اکسایا اور اس کے بعد ٹوئٹر اکاؤنٹس پر بڑی تعداد میں شیئر کیا گیا اور انہوں نے اپنی وابستگی حکمراں جماعت سے ظاہر کی۔

اعلامیہ کے مطابق خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی تصاویر اور ویڈیوز منظم مہم کے تحت مسخ حالت میں پھیلائی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ ’انہیں سوشل میڈیا پر جعلی خبر پھیلانے والا، عوام کا دشمن اور رشوت خور قرار دیا گیا تاکہ صحافتی ساکھ متاثر ہو‘۔

اعلامیہ کے مطابق آن لائن حملہ کرنے والوں نے صنف کی بنیاد پر انہیں تضحیک کا بھی نشانہ بنایا اور جسمانی یا جنسی تشدد کی دھمکیاں دی گئیں۔

مزید پڑھیں: آن لائن ہراساں کرنے کے خلاف فیس بک کی کوششوں میں اضافہ

بیان میں کہا گیا کہ ’رپورٹرز اور تجزیہ کاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو ہیک کرنے کی کوشش کی گئی اور معلومات تک ان کی رسائی محدود کردی گئی۔'

انہوں نے کہا کہ 'میڈیا میں موجود خواتین کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر رہنے اور آزادانہ طور پر بات کرنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ متعدد کو سیلف سینسر کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔'

واضح رہے کہ انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے گزشتہ جولائی میں صحافیوں کے خلاف دھمکیوں کا نوٹس لینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس معاملے پر کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔

بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ’اپنے کارکنوں کو میڈیا میں بار بار خواتین کو نشانہ بنانے سے روکیں‘ اور پارٹی کے تمام اراکین کو ایک واضح پیغام بھیجیں کہ براہ راست یا بلاواسطہ آن لائن ہراساں کرنے سے باز رہیں۔

انہوں نے حکومت سے ’ایسے تمام حکومتی افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی مطالبہ کیا‘۔

بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ ’خواتین صحافیوں کو نشانہ بنانے اور ان کے خلاف تضحیک آمیز باتیں کرنا پریشان کن ہیں‘۔

خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے اعلامیے میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کی انسانی حقوق سے متعلق قائمہ کمیٹیوں سے بھی دھمکی آمیز ماحول کا نوٹس لینے اور ’حکومت کو جوابدہ رکھنے‘ کا مطالبہ کیا گیا۔

اس کے جواب میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹ کیا کہ انہوں نے انسانی حقوق کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے خواتین صحافیوں کو دھمکیوں کا نوٹس لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’آپ سب کو دعوت دینا چاہوں گا کہ وہ ہماری کمیٹی کے سامنے مسئلہ مختصر طور پر پیش کریں‘۔

رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے صحافیوں کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'تنقید کا جواب دھمکیوں سے دینا فاشزم کی علامت ہے۔'

انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’آزادی اظہار پر یقین رکھنے والے تمام افراد کو اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان فاشسٹ حربوں کی مذمت کے لیے متحد ہونا چاہیے۔'

'کراچی میں لوڈ شیڈنگ کے ساتھ بجلی کا بل بھی زیادہ آرہا ہے'

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کا خواجہ سراؤں کے لیے بڑا فیصلہ

جوبائیڈن نے افریقی نژاد سینیٹر کمالا ہیرس کو نائب صدر کیلئے امیدوار نامزد کردیا