مقبوضہ کشمیر میں انکاؤنٹر میں قتل کیے گئے 3 نوجوان مزدور تھے، اہلخانہ
نئی دہلی: گزشتہ ماہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع شوپیاں سے لاپتا ہونے والے 3 مزدوروں کے اہلخانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ 18جولائی کو بھارتی فوج نے جن 3 نامعلوم 'عسکریت پسندوں' کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا کہ وہ درحقیقت ان کے بے گناہ رشتے دار تھے۔
دی وائر کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر یہ الزامات درست ہیں تو یہ مارچ 2000 کے پتھریبل واقعے کی دردناک یادوں کو تازہ کردے گا جس میں اننت ناگ کے پانچ شہریوں کو سیکیورٹی فورسز نے قتل کردیا تھا اور انہیں 'دہشت گرد' قرار دیا گیا تھا اور حال ہی میں 2010 کا میچل انکاؤنٹر بھی شامل ہے جس میں 3 شہریوں کو قتل کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: بھارتی فورسز نے 24 گھنٹے میں 5 کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا
25 سالہ ابرار احمد کے والد محمد یوسف نے بتایا کہ راجوری میں نوجوانوں کے اہل خانہ نے بتایا کہ انہوں نے جمعرات کے روز راجوری پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی ہے، امتیاز احمد تقریبا ایک ماہ سے شوپیاں میں مزدور کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، اس نے میرے بیٹے ابرار اور میری بھابھی کا بیٹا جس کا نام بھی ابرار ہے، کو کام کی تلاش میں وہاں آنے کو کہا، وہ 16 جولائی کو شوپیاں روانہ ہوگئے، تب سے ہمیں ان کے ٹھکانے کے بارے میں کچھ نہیں معلوم، میں نے 18 جولائی کو انہیں فون کیا تھا لیکن ان کا فون بند تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ 18 جولائی کو شوپیان کے ایمپھی پورہ میں ہلاک ہونے والوں کے بارے میں کسی کی مدد سے دکھائی جانے والی تصاویر سے اپنی بھابھی کے بیٹے ابرار کی شناخت کرسکتے ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں ان تصاویر سے ان کو پہچان سکتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ منگل کے روز راجوری کی ضلعی انتظامیہ سے شوپیاں جانے کے لیے اجازت حاصل کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تینوں نوجوان روزی کمانے کی غرض سے شوپیاں گئے تھے اور ان کا عسکریت پسندی سے کوئی واسطہ نہیں تھا، ہم غریب لوگ ہیں اور ہمارا عسکریت پسندی سے دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے آئینی دہشت گردی کی، راجا فاروق
راجوری کے ایک اور مقامی لال حسین نے بتایا کہ امتیاز احمد نے اسے 17 جولائی کی شام فون پر بتایا تھا کہ دونوں لڑکے بھی شوپیاں پہنچ چکے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے سب سے پہلے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ کووڈ 19 کی وجہ سے انہیں قرنطینہ کردیا گیا ہے، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں ہیں، اب ہم نے پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی ہے۔
راجوری سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی اور سماجی کارکن گفتار احمد چوہدری نے کہا کہ اہل خانہ کو خدشہ ہے کہ ان لڑکوں کو شوپیاں میں مقابلے میں قتل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی جلد سے جلد تحقیقات ہونی چاہیے۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں نئے لیفٹیننٹ گورنر کی تعیناتی
سیاسی تجزیہ کار اور جموں سے آئے ہوئے صحافی ظفر چوہدری نے ٹوئٹ کیا کہ انہوں نے اس کنبے سے بات کی ہے جنہوں نے بلاشک و شبہ تینوں نوجوانوں کی شناخت کی ہے۔
18 جولائی کو جموں و کشمیر پولیس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ تصادم راشٹریہ رائفلز کی 62 بٹالین کی نشاندہی پر انجام دیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ تلاشی کے دوران دہشت گردوں نے فوجی جوانوں پر فائرنگ کردی اور انکاؤنٹر شروع ہوگیا، بعدازاں پولیس اور سی آر پی ایف بھی اس میں شامل ہوگئے، مقابلے کے دوران 3 نامعلوم دہشت گرد ہلاک ہوگئے، ہلاک ہونے والے تینوں دہشت گردوں کی لاشیں انکاؤنٹر کے مقام سے بازیافت کی گئیں، ترجمان نے بتایا کہ ہلاک دہشت گردوں کی شناخت اور وابستگی کا پتا لگایا جا رہا ہے۔
دریں اثنا ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی (مارکسی) نے تینوں مزدوروں کے گمشدہ ہونے کے واقعے کو سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے عدالتی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال، ملک بھر میں یومِ استحصال منایا گیا
پارٹی نے کہا کہ ایسی غیر مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ لاپتا مزدور 18 جولائی کو شوپیاں میں جعلی مقابلے میں قتل کردیئے گئے ہیں، یہ چونکا دینے والی ہے اور اس کی مخصوص وقت کے اندر ہائی کورٹ کے کسی جج کے ذریعے تفتیش کرنی چاہیے، ماضی میں بھی کشمیر میں انعامات اور ترقیوں کے لیے جعلی مقابلوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، 2010 کی بدامنی ماچل فرضی انکاؤنٹر کی تخلیق تھی، ایسے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہونے والے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
پی ڈی پی رہنما محبوبہ مفتی کے ٹوئٹر ہینڈل سے ایک ٹوئٹ میں ان کی بیٹی التجا مفتی نے کہا کہ شوپیاں میں ہونے والے "انکاؤنٹر" کی اطلاعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلح افواج استثنیٰ کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔
یہ خبر 11اگست 2020 بروز منگل ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔