لبنان میں حکومت مخالف احتجاج، پولیس کی مظاہرین پر آنسو گیس شیلنگ
گزشتہ ہفتے کے تباہ کن دھماکے کے نتیجے میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے دوسرے دن لبنانی پولیس نے بیروت میں پارلیمنٹ کے قریب سڑک بند کرنے اور پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کے لیے آنسو گیس فائر کی۔
ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ پارلیمنٹ اسکوائر کے داخلی دروازے پر آگ لگ گئی جب مظاہرین نے کارڈن آف کیے گئے علاقے میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔
مظاہرین نے وزارت ہاؤسنگ اور ٹرانسپورٹ کے دفتر کو بھی توڑ دیا۔
دھماکے اور مہینوں سے جاری معاشی بحران کے باعث لبنان میں پیدا ہونے والے سیاسی تنازع کی وجہ سے دو حکومتی وزرا نے یہ کہتے ہوئے کہ حکومت اصلاحات میں ناکام رہی ہے، مستعفی ہوگئے۔
منگل کے روز بیروت میں 2 ہزار ٹن سے زائد امونیم نائٹریٹ کے دھماکے میں 158 افراد ہلاک اور 6 ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے جس کے بعد عوام نے حکومت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا۔
رائٹرز کے نمائندے کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اسکوائر اور قریبی واقع شہدا اسکوائر پر ہزاروں افراد اکٹھے ہوئے جن کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں، پولیس آرمر پہنے ہوئے اور لاٹھیوں سے لیس تھی۔
مزید پڑھیں: سانحہ بیروت پر لبنان کی وزیر اطلاعات کی عوام سے معذرت، عہدے سے مستعفی
مظاہرے میں شریک ولید جمال نے ملک کے سب سے بااثر ایران کی حمایت یافتہ مسلح گروہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے ان رہنماؤں کو ہماری مدد کرنے کے بہت سارے مواقع دیے اور وہ ہمیشہ ناکام رہے، ہم ان سب کو ختم کرنا چاہتے ہیں، خاص طور پر حزب اللہ کو، کیونکہ یہ ایک مسلح تنظیم ہے جس کے حکومت میں وزرا بھی ہیں اور یہ اپنے ہتھیاروں سے لوگوں کو ڈرا رہی ہے'۔
ملک کے اعلیٰ مسیحی پادری پیٹریاچ بیچارا بوٹروس الرائے نے کہا کہ کابینہ کو استعفی دینا چاہیے کیونکہ وہ 'اپنے طرز حکمرانی کو تبدیل نہیں کرسکتی'۔
انہوں نے کہا کہ 'کسی رکن پارلیمنٹ یا وزیر کا استعفیٰ کافی نہیں ہے، پوری حکومت کو استعفی دینا چاہیے کیونکہ وہ ملک کی بحالی میں مدد کرنے سے قاصر ہے'۔
ڈیمیانوس کٹر کے مستعفی ہونے کے بعد وزیر اطلاعات منال عبدالصمد نے استعفیٰ دیا۔
بیروت کے وسط میں ہفتے کے روز پرتشدد مناظر میں عوام کا غم و غصہ دیکھا گیا، یہ احتجاج اکتوبر کے بعد ہونے والا سب سے بڑا مظاہرہ تھا جب ہزاروں افراد بدعنوانی اور بد انتظامی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
دس ہزار سے زائد افراد شہدا اسکوائر پر جمع ہوئے اور پارلیمنٹ جانے والی سڑک پر لگی رکاوٹیں توڑنے کی کوشش کیں، چند مظاہرین نے سرکاری وزارتوں اور لبنانی بینکوں کی ایسوسی ایشن پر دھاوا بولا۔
مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپ کی وجہ سے یہ سڑک جنگ کے میدان کا منظر پیش کر رہی ہے جہاں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ریڈ کراس کے مطابق 170 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
'حکومت تبدیل کرو'
55 سالہ ریٹائرڈ فوجی افسر یونس فلائتی نے کہا کہ 'پولیس نے مجھ پر فائر کیا لیکن یہ اس وقت تک ہمیں مظاہرے سے نہیں روک سکتے جب تک ہم حکومت کو اوپر سے نیچے تک تبدیل نہیں کردیتے'۔
یہ بھی پڑھیں: بیروت دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 135 سے تجاوز کر گئی، 5 ہزار زخمی
قریب ہی مکینک صابر جمالی شہدا اسکوائر میں لکڑی کے فریم سے منسلک ایک رسی کے نزدیک بیٹھ گیا جس کا مطلب لبنانی رہنماؤں کو استعفی دینے یا پھانسی کا سامنا کرنے کا علامتی انتباہ تھا۔