شوگر اسکینڈل: عید کے بعد جہانگیر ترین، شہباز شریف اور آصف زرداری کو نوٹسز بھیجنے کا فیصلہ
اسلام آباد:شوگر اسکینڈل میں ملوث شوگر ملز مالکان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے عیدالاضحیٰ کے بعد انہیں نوٹسز ارسال کیے جائیں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جن افراد کو نوٹسز بھیجے جائیں گے، ان میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری شامل ہیں۔
شوگر اسکینڈل کی تحقیقات میں حالیہ پیشرفت سے آگاہ ذرائع کے مطابق حکومت کی ہدایت کے مطابق تمام متعلقہ محکمے شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کریں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں مل مالکان کو نوٹسز ارسال کیے جائیں گے جن میں جہانگیر ترین بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے حکومت کو شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی
خیال رہے کہ جہانگیر ترین، انکوائری کمیشن کی جانب سے چینی بحران کی فرانزک آڈٹ رپورٹ جاری کرنے سے قبل ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ نوٹسز جاری کرنے کا بنیادی مقصد انہیں (مل مالکان) کو طلب کرنا ہے تاکہ متعلقہ حکام کے سامنے ان کے بیانات قلمبند کیے جاسکیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر جہانگیر ترین جواب نہیں دیتے اور تحقیقات کا سامنا کرنے کے لیے ملک واپس نہیں آتے تو انہیں واپس آنے کے لیے موجود دیگر اختیارات استعمال کیے جائیں گے۔
ذرائع نے مزید کہا کہ نوٹس صرف صرف جہانگیر ترین ہی کو ارسال نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے خاندان کے وہ افراد جو کاروبار میں شراکت دار ہیں انہیں بھی نوٹسز جاری کیے جائیں گے۔ شوگر ملز مالکان کے خلاف جو محکمے کارروائی کریں گے ان میں قومی احتساب بیورو(نیب)، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان(ایس بی پی)، کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان(سی سی پی) اور انسداد بدعنوانی کے تمام صوبائی محکمات شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اداروں کو شوگر مافیا کے خلاف کارروائی سے روکا نہیں جاسکتا، اسلام آباد ہائیکورٹ
وزیراعظم عمران خان نے شوگر ملز مالکان کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور آئندہ 90 روز میں رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
ذرائع نے کہا کہ متعلقہ محکموں نے شوگر اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے ٹیمیں بھی تشکیل دینا شروع کردی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی اے نے اس مقصد کے لیے 11 رکنی ٹیم تشکیل دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ٹیم تحقیقات کرے گی کہ کس طرح چینی افغانستان اسمگل کی گئی تھی اور مل مالکان نے کیسے مبینہ منی لانڈرنگ کی۔
وزیر اعظم عمران خان کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ مرزا شہزاد اکبر نے اسٹیٹ بینک، سی سی پی کے علاوہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کے چیف سیکریٹریز کو خطوط لکھے تھے اور ان سے کہا تھا کہ شوگر ملز مالکان کے خلاف فرانزک آڈٹ رپورٹ کی روشنی میں کارروائی کی جائے۔
خطوط کے ساتھ شوگر انکوائری کمیشن کی حالیہ رپورٹ میں منسلک کی گئی تھی، شوگر ملز مالکان پر ذمہ داری عائد کرنے اور قانون کے خلاف سبسڈیز کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے نیب کو بھی خط ارسال کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق نیب، شوکر اسکینڈل میں ملوث تمام سرکاری عہدیداران بشمول سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے نمٹے گی جن پر مل مالکان کو 20 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا الزام ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شاہد خاقان عباسی نے بین الاقوامی سطح پر چینی کی قیمتوں میں کمی کے کئی ماہ بعد برآمد کی اجازت دی تھی اور مل مالکان کو سبسڈی تھی۔
ذرائع نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف گزشتہ برس مل مالکان کو 2 ارب روپے کی سبسڈی دینے کے خلاف بھی تحقیقات کی جائیں گی۔
ایف بی آر کو تمام شوگر ملز کا آڈٹ کرکے بے نامی اکاؤنٹس، مشکوک ٹرانزیکشنز اور ٹیکس چھوٹ سے متعلق تحقیقات کی ہدایت دی گئی تھی۔
23 جون کو وفاقی کابینہ نے شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر ایک ایکشن پلان مرتب دیا تھا۔
علاوہ ازیں پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کے چیف سیکریٹریز کو بھی خطوط ارسال کیے جاچکے ہیں جس میں ان سے کارروائی شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔
دوسری جانب گورنر اسٹیٹ بینک کو شوگر ملز کو دیے گئے قرضوں کی تحقیقات کرنے اور جامع رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی جبکہ ایف آئی اے اور ایس ای سی پی کو کارپوریٹ فراڈ اور شوگر ملز کے برآمد کے معاملے کی تحقیقات کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
خطوط میں کہا گیا کہ متعلقہ محکمے حکومت سے بھاری سبسڈی ملنے کے باوجود گنے کے کاشتکاروں کو سود اور مختصر ادائیگی پر دیے گئے قرضوں کی تحقیقات کریں گے جبکہ صوبائی اینٹی کرپشن محکمات شوگر ملز کے خلاف تحقیقات کا آغاز کریں گے۔
چینی بحران کی تحقیقات اور کارروائی کا معاملہ
خیال رہے کہ حکومت نے 21 فروری کو ملک بھر میں چینی کی قیمت میں یکدم اضافے اور اس کے بحران کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔
کمیٹی کے سامنے تفتیش کے لیے پہلا سوال یہ تھا کہ ‘کیا رواں برس چینی کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابلے میں کم تھی، کیا کم پیداوار ہی قیمت میں اضافے کی وجہ تھی’ اور کمیٹی سے کہا گیا تھا کہ وہ تفتیش کرے کہ ‘کیا کم از کم قیمت کافی تھی’ اور تیسرا سوال دیا گیا تھا کہ ‘کیا شوگر ملوں نے گنے کو مہنگا خریدا، اگر ہاں تو اس کی وجوہات معلوم کی جائیں’۔
بعدازاں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ: شوگر انکوائری رپورٹ کی کارروائی پر حکم امتناع میں توسیع
جس کے بعد 21 مئی کو حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ منظرعام پر لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، 2 کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔
معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔
چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
بعدازاں 10 جون کو پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے انکوائری کمیشن کی تشکیل اور اس کی رپورٹ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی جس کے بعد 11 جون کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کو شوگر انکوائری کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرنے سے روک دیا تھا۔
بعدازاں اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی منصفانہ اور غیر جانبدار ہوگی، چنانچہ 20 جون کو اپنے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر کارروائی روکنے کے لیے شوگر ملزم ایسوسی ایشن اور ملز مالکان کی جانب سے دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے چینی رپورٹ پر کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں چینی انکوائری کمیشن کی تشکیل درست قرار دی تھی جبکہ حکومتی ارکان کو چینی کیس پر غیر ضروری بیان بازی سے روکتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ چینی کیس میں تمام فریقین منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنائیں۔
دوسری جانب جون کے مہینے ہی میں میرپور خاص شوگر ملز اور سندھ کی دیگر 19 ملز نے چینی کی ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف مرتب کی گئی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور رپورٹ کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی تھی۔
جس پر 23 جون کو عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ قابل وکیل کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات قابل غور ہیں اور ساتھ ہی وفاقی حکومت کو 30 جون تک تحقیقاتی رپورٹ پر عملدرآمد سے روک دیا تھا اور 30 جون کو سندھ ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت تک حکم امتناع میں توسیع کردی تھی۔
دوسری جانب 28 جون کو وفاقی حکومت نے شوگر کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد روکنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
بعدازاں 14 جولائی کو سپریم کورٹ نے شوگر انکوائری رپورٹ پر عملدرآمد سے روکنے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا حکم امتناع خارج کرتے ہوئے حکومت کو کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔