لاہور ہائیکورٹ: جج نے شہباز شریف کا کیس سننے سے معذرت کرلی
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شہرام سرور چوہدری نے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے دائر درخواست ضمانت کی مزید سماعت کرنے سے معذرت کر لی۔
انہوں نے کہا کہ میں ذاتی وجوہات کی بنا پر یہ کیس نہیں سننا چاہتا، کیس کی فائل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے پاس بھجوا رہے ہیں تاکہ وہ شہباز شریف کے کیس کے لیے نیا بینچ تشکیل دے دیں۔
تاہم جسٹس شہرام سرور چوہدری پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کی جانب سے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کی درخواست پر آج کے لیے مقررہ سماعت کی اور ان کی عبوری ضمانت میں توسیع کردی۔
شہباز شریف نے عدالت میں پیش ہو کر بیان دیا کہ مجھے قومی احتساب بیورو (نیب) نے کہا کہ آپ سے تفتیش مکمل ہو گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں 23 جولائی تک توسیع
شہباز شریف نے کہا کہ میں خود بیرون ملک سے پاکستان واپس آیا، کینسر کا مریض ہوں اور مجھے علاج کے لیے بیرون ملک جانا ہوتا ہے، میرے بڑے بھائی نواز شریف بیمار ہیں اور ان کا بھی علاج چل رہا ہے۔
بعدازاں عدالت نے شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں 17 اگست تک توسیع کردی۔
خیال رہے کہ آج کی سماعت میں عدالت نے نیب اور درخواستگزار کے وکلا کو بحث کیلئے طلب کر رکھا تھا۔
شہباز شریف کی لاہور ہائیکورٹ میں پیشی سے قبل سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے اور لاہور ہائیکورٹ کے داخلی و خارجی راستوں کے علاوہ عدالت کے اندر اور باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: شہباز شریف کو کورونا کا ٹیسٹ کروانے، رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم
علاوہ ازیں سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکار بھی تعینات کیے گئے اور غیر متعلقہ افراد کا لاہور ہائیکورٹ میں داخلہ بند کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نیب سب کے سامنے آشکار ہو چکا, شہباز شریف
سماعت کے موقع پر میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نیب سیاسی انتقام کا نشانہ بنارہا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نیب سب کے سامنے آشکار ہو چکا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عید الاضحی کی بعد آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔
سماعت میں پیشی کے موقع پر رہنما مسلم لیگ (ن) رانا ثنا اللہ بھی شہباز شریف سے اظہار یکجہتی کے لیے عدالت پہنچے تھے۔
رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اور مسلم لیگ (ن) کی کوشش ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر لائحہ عمل طے کریں کہ حکمرانوں کی نفرت اور انتقام سے نجات مل سکے۔
یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو کا شہباز شریف سے رابطہ، اتحاد کیلئے امیدیں زور پکڑ گئیں
انہوں نے مزید کہا کہ حکمرانوں کی کوئی پالیسی نہیں، ان کی پالیسی انتقام اور نفرت ہے اگر حکمرانوں کو مزید وقت دیا گیا تو یہ ملک ایسی دلدل میں دھکیل دیں گے جہاں سے نکلنا مشکل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ نیب کا قانون اندھا ہے اور اب معاشی دہشت گردی کا قانون بنانے جارہے ہیں جس کے تحت جس کو بھی پکڑیں گے وہ مسنگ پرسن ہوگا، ایک صحافی کے اغوا کے بعد لگ رہا ہے ملک کو گوانتاناموبے بنایا جارہا ہے۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ نیب کا ادارہ اپنی اہمیت کھو چکا ہے، سپریم کورٹ سے ثابت ہوچکا نیب انتقامی کارروائیاں کررہا ہے، انتقام سے ملک و حکومت نہیں چل سکتی یہ ملک کو لے کر بیٹھ گیا ہے۔
شہباز شریف کی وطن واپسی کے بعد تحقیقات کا احوال
یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر مارچ کی 22 تاریخ کو لندن سے وطن واپس آئے تھے جس کے بعد نیب نے انہیں آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کے حوالے تحقیقات کے لیے متعدد مرتبہ طلب کیا۔
17 اور 22 اپریل کو شہباز شریف نے کورونا وائرس کے باعث صحت کو وجہ بناتے ہوئے پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ نیب نے انہیں طبی ہدایات کے مطابق تمام تر احتیاطی تدابیر اپنانے کی یقین دہانی کروائی تھی۔
بعدازاں شہباز شریف 4 مئی کو نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے جہاں ان سے ایک گھنٹہ 45 منٹ تک آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس سے متعلق سوالات کیے گئے تھے۔
نیب نے شہباز شریف کے جوابات کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے انہیں 2 جون کو دوبارہ طلب کیا تھا۔
شہباز شریف نے اپنے وکیل کے توسط سے مطلوبہ دستاویز قومی احتساب بیورو میں جمع کروادیے تھے تاہم نیب نے ان دستاویزات اور شواہد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے انہیں ذاتی طور پر سوالات کا جواب دینے کے لیے پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔
ان کے پیش نہ ہونے پر 2 جون کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم نے انہیں گرفتار کرنے کے لیے لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار تھا جہاں 2 سے ڈھائی گھنٹے گزارنے کے بعد اسے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔
چھاپے کے اگلے ہی روز شہباز شریف نے عبوری ضمانت کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا کہ جس پر عدالت نے نیب کو 17 جون تک شہباز شریف کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔
ضمانت ملنے کے بعد 9 جون کو شہباز شریف منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کے کیس میں نیب میں پیش ہوئے جہاں ان سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک تفتیش کی گئی۔
ان کی ضمانت کی مدت ختم ہونے سے ایک روز قبل نیب نے شہباز شریف کی ضمانت کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا تاہم اس کے بعد سے شہباز شریف کی ضمانت میں متعدد مرتبہ توسیع کی جاچکی ہے۔