جسٹس فائز عیسیٰ کی سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف نظرثانی درخواست
سپریم کورٹ میں اپنے خلاف ریفرنس کے معاملے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت عظمیٰ کے 19 جون کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کردی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے درخواست میں عدالت عظمیٰ سے فیصلے پر نظرثانی کر کے عبوری حکم کو ختم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نظرثانی درخواست پر فیصلے تک عدالتی فیصلے پر عملدرآمد روک دیا جائے اور عبوری حکم سے پہلے ہماری زیر التوا متفرق درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ عدالت کے تفصیلی فیصلے کا انتظار تھا جس میں تاخیر کی گئی، نظرثانی درخواست داخل کرنے کی مدت گزر نہ جائے اس لیے درخواست دائر کر رہا ہوں، جبکہ اضافی دستاویزات جمع کروانے کا حق محفوظ ہے۔
درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) نے میرے اہل خانہ کے خلاف کارروائی تفصیلی فیصلے سے پہلے ہی شروع کر دی، عبوری فیصلے میں حقائق اور دائرہ اختیار سے متعلق مواد کے حوالے سے سقم موجود ہیں، بہت سے معاملات میں مجھے اور میرے اہل خانہ کو سنا ہی نہیں گیا حتیٰ کہ اٹارنی جنرل اور ایف بی آر کو بھی نہیں سنا گیا۔
انہوں نے موقف اختیار کیا کہ عبوری حکم میں آرٹیکل 4، 10 اے، 24، 175/2 اور 184/3 سمیت دیگر آرٹیکل کو نظر انداز کیا گیا، ریفرنس کالعدم ہونے کے بعد ایف بی آر کو تحقیقات کے لیے کہنا بلاجواز ہے جبکہ ایف بی آر کو سپریم جوڈیشیل کونسل میں رپورٹ جمع کرانے کے احکامات بھی بلاجواز ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایف بی آر کو اس معاملے میں ہدایات دینا ایگزیکٹو کو کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے، ایگزیکٹو میرے خلاف پہلے غیر قانونی اقدامات کر چکی ہے، مختصر فیصلے کے بعد ایف بی آر چیئرمین کی تبدیلی کر کے حکومت نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی، جبکہ چیئرمین ایف بی آر کی تبدیلی اپنے من پسند نتائج کے حصول کی غماز ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا
درخواست میں کہا گیا کہ ایف بی آر کی جانب سے درخواست گزار کی رہائش گاہ کے باہر نوٹس چسپاں کرنا بدنیتی پر مبنی ہے، نوٹس چسپاں کرنے کا بنیادی مقصد میری اور اہل خانہ کی تضحیک کرنے کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم نے اب تک اپنے دلائل دو حصوں میں تحریری طور پر جمع کرائے ہیں، ہمیں حکومتی تحریری دلائل پر جواب جمع کرانے کا موقع دیا جائے۔
صدارتی ریفرنس پر عبوری فیصلہ
واضح رہے کہ 19 جون کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا تھا۔
عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی، فل کورٹ کے دیگر اراکین میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد شامل تھے۔
یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں، اس دوران ایک اٹارنی جنرل نے ججز سے متعلق بیان پر نہ صرف استعفیٰ دیا بلکہ فروغ نسیم بھی کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے کے لیے وزیر قانون کے عہدے سے مستعفی ہوئے، یہی نہیں بلکہ یہ کیس تاریخی لحاظ سے اس لیے بھی اہم رہا کیونکہ اس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس عیسیٰ عدالت میں خود پیش ہوئے۔
مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے، سپریم کورٹ
دوران سماعت جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے حکومتی وکیل فروغ نسیم کے دلائل مکمل ہونے پر جواب الجواب دیا جس کے بعد 19 جون کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا اور اسی روز جاری کردیا گیا۔
سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ابتدائی طور پر مختصر فیصلہ سنایا، بعد ازاں مختصر تحریری فیصلہ جاری کیا گیا جس میں تین ججز نے اکثریت فیصلے سے اختلاف میں اضافی نوٹ لکھا۔
عدالت عظمیٰ نے مختصر تحریری فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جاری کیا گیا شوکاز نوٹس بھی منسوخ کردیا، مزید یہ کہ عدالت کی جانب سے یہ حکم دیا گیا کہ ایف بی آر 7 روز میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کو نوٹس جاری کرے، نوٹس ہر پراپرٹی کا الگ الگ بھجوایا جائے، ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ نوٹس جسٹس عیسیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کے پتے پر بھجوایا جائے اور ایف بی آر معاملے کو التوا میں نہ ڈالے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ قانون کی کارروائی بنتی ہو تو سپریم جوڈیشل کونسل مجاز ہوگی، چیئرمیں ایف بی آر اپنے دستخط سے رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کو جمع کرائیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس میں الزام لگایا تھا کہ انہوں نے 2011 سے 2015 کے دوران لندن میں لیز پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیدادیں حاصل کیں تھیں لیکن انہیں ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا تھا، بعدازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزامات کا مقابلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ فلیٹس کے بینیفشل اونر نہیں ہیں۔
اس درخواست کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں استدعا کی تھی کہ کچھ طاقتیں انہیں کسی نہ کسی طریقے سے آئینی عہدے سے ہٹانا چاہتی ہیں جبکہ صدر مملکت عارف علوی نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے قبل اپنی آزادانہ رائے قائم نہیں کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: 'کسی نے نہیں کہا جج کا احتساب نہیں ہوسکتا، قانون کے مطابق ایسا ہوسکتا ہے'
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وزیراعظم، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن 116 (بی) کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا اور غلطی سے اسے ان کی اہلیہ اور بچوں پر لاگو کردیا تھا جبکہ اس قانون کا اطلاق صرف زیر کفالت اہلیہ اور ان بچوں پر اطلاق ہوتا ہے جو چھوٹے ہوں اور والد پر انحصار کرتے ہوں۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سرکاری ایجنسیوں بشمول ایف آئی اے نے خفیہ طور پر درخواست گزار اور ان کے خاندان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 4 اور 14 کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے معلومات حاصل کیں اور انہیں تحقیقات سے متعلق اعتماد میں نہیں لیا گیا نہ ہی انہیں جواب دینا کا کوئی موقع فراہم کیا گیا۔
جسٹس قاضیٰ عیسیٰ نے عدالت سے درِخواست کی تھی کہ حکومت کی جانب سے ان کے خاندان کی جائیدادوں کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو غیرقانونی قرار دیا جائے، ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ میرے اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقات غیر قانونی ہیں۔