پاکستان

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ایف بی آر میں تحریری جوابات جمع کرادیے

ناکافی معلومات کی صورت میں انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 176 کے تحت وضاحت کا مزید موقع دینے کا امکان ہے، ایف بی آر ذرائع
|

اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے آف شور جائیدادوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعمیل کرتے ہوئے اسلام آباد زون میں کمشنر آف ٹیکسیشن کو تحریری جوابات جمع کرادیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے 19 جون کو جاری مختصر حکم کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور ان کے 2 بچوں ارسلان فائر عیسیٰ اور سحر عیسیٰ کی برطانیہ میں 3 آف شور جائیدادوں کی نوعیت اور فنڈنگ کے ذرائع کی وضاحت طلب کرنے کی ہدایت کی تھی۔

مذکورہ ہدایت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کے تحت دی گئی تھی۔

سرینا عیسیٰ، کمشنر آٹو میٹک ایکسچینج آف انفارمیشن (اے ای او آئی) زون اسلام آباد ذوالفقار خان کے دفتر پہنچیں جو آف شور ٹیکسیشن کے معاملات دیکھتے ہیں۔

انہوں نے ذاتی حیثیت میں خود کو اور اپنے 2 بچوں کو جاری کردہ 3 نوٹسز کے تحریری جوابات جمع کرائے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

عام طور پر ٹیکس سے متعلق کارروائیوں میں ٹیکس کنندہ کی موجودگی لازمی نہیں ہوتی اور وکلا یا ای میل یا کیس کی پیروی کی جاسکتی ہے، تاہم سرینا عیسیٰ (زرینہ) نے ذاتی حیثیت میں جوابات جمع کرائے۔

خیال رہے کہ ہسپانوی زبان میں زرینہ کو 'سرینا' لکھا جاتا ہے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 176 کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے 2 بچوں کی 3 جائیدادوں کی خریداری اور ان کے ذرائع سے متعلق وضاحت طلب کرنے کے لیے نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔

مذکورہ سیکشن ٹیکس کنندہ کو اثاثہ جات سے متعلق اپنی پوزیشن کی وضاحت دینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق اب کمشنر آفس تحریری جوابات کو اسکروٹنائز کریں گے، انہوں نے بتایا کہ جوابات کی حیثیت کو 3 سے 4 دن میں کلیئر کیا جائے گا۔

ذرائع نے مزید کہا کہ ناکافی معلومات کی صورت میں اسی سیکشن کے تحت کیس میں وضاحت کا مزید موقع دینے کا امکان ہے۔

ایک اور ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مزید نوٹس کا معاملہ تحریری جوابات کے مندرجات کی نوعیت پر انحصار کرتا ہے۔

شوکاز نوٹس سے متعلق ذرائع نے کہا کہ وہ آئندہ چند روز میں کلیئر کردیا جائے گا۔

خیال رہے کہ 3 نوٹسز موصول نہ ہونے کے بعد اے ای او آئی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رہائش گاہ کے باہر 3 نوٹسز چسپاں کردیے تھے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے تحقیق کا دائرہ کار صرف برطانیہ میں موجود 3 جائیدادوں تک محدود رکھا ہے، یہ جائیدادیں 2003 سے 2013 کے درمیان خریدی گئی تھیں۔

پہلی جائیداد سرینا عیسیٰ کے نام پر 2004 میں 2 لاکھ 36 ہزار پاؤنڈز میں خریدی گئی تھی، دوسری جائیداد 2013 میں ان کے اور بیٹے ارسلان فائز عیسیٰ کے نام پر 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈز میں خریدی گئی تھی۔

علاوہ ازیں تیسری جائیداد 2 لاکھ 70ہزار پاؤنڈ میں سرینا عیسیٰ اور ان کی بیٹی سحر عیسیٰ کے نام پر خریدی گئی تھی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو شواہد کے ساتھ نوٹسز کے جوابات جمع کرانے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو تویہ اس شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ وقت پر جواب جمع کروائے اور کمشنر کے سامنے کارروائی کو کسی شخص کی پاکستان میں عدم موجودگی کی بنا پر ملتوی یا تاخیر کا شکار نہیں کیا جائے گا۔

حکم نامے کے مطابق فریقین نوٹسز کے جوابات، کسی مواد اور ریکارڈ جو مناسب سمجھیں ان کے ساتھ جمع کروائیں گے، اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو۔

جوابات موصول ہونے کمشنر مدعی کو ذاتی طور پر یا نمائندہ/وکیل کے ذریعے سماعت کا موقع دے گا اور انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے مطابق حکم جاری کرے گا۔

نوٹسز موصول ہونے کے بعد کمشنر 60 دن کے اندر سماعت مکمل کرے گا اور وصولی کے 75 دن کے اندر حکم جاری کرے گا اور مذکورہ وقت میں کوئی التوا یا توسیع نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی اہلخانہ کو قتل کی دھمکیوں کے خلاف شکایت

کمشنر کی جانب سے احکامات جاری ہونے کے 7 روز کے اندر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین سماعت سے متعلق اپنی دستخط شدہ رپورٹ اپنے سیکریٹری-سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں جمع کروائیں گے۔

سیکریٹری رپورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کریں گے جو مناسب انداز میں اگر درخواست گزار سے متعلق کونسل کچھ تعین کرے تو رپورٹ کو جائزے، کارروائی، حکم یا سماعت کے لیے کونسل کے سامنے پیش کریں گے۔

سماعت کے آغاز سے قبل میڈیا میں یہ اطلاع لیک کی گئی تھی کہ سرینا عیسیٰ نوٹسز کا جواب دینے کے لیے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز جائیں گی۔

دریں اثنا کیس کی سماعت کے وقت تمام میڈیا پرسنز ایف بی آر ہیڈکوارٹرز پہنچ گئے تھے۔

حیران کن طور پر ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز میں کوئی بھی اس پیشرفت سے آگاہ نہیں تھا اور بعدازاں یہ معلوم ہوا کہ سماعت ایف بی آر کی عمارت سے کچھ کلومیٹر دور محکمہ وقف املاک کی عمارت میں ہوگی۔

تاہم غلط اطلاع کس نے پھیلائی اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان موصول نہیں ہوا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا پس منظر

خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کا معاملہ مئی 2019 کے اواخر میں سامنے آیا تھا جس میں سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی، ریفرنس دائر ہونے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے۔

مزید پڑھیں: فائز عیسیٰ کیس: 'کسی نے نہیں کہا جج کا احتساب نہیں ہوسکتا، قانون کے مطابق ایسا ہوسکتا ہے'

بعد ازاں 7 اگست 2019 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا اور 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ میرے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔

بعدازاں 19جون کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا تھا۔

یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا تھا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئی تھیں۔

پاکستان میں 2 لاکھ 45 ہزار سے زائد کورونا کیسز، ایک لاکھ 49 ہزار 92 صحتیاب

ایف بی آر کا ریونیو زیادہ دکھانے کیلئے 532 ارب روپے کے ریفنڈ کلیمز بلاک کرنے کا اعتراف

پاکستان میں رواں ماہ کے اختتام پر ٹڈی دل کے بڑے حملے کا خدشہ