کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ، قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے
قومی اسمبلی میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بجلی کی طویل بندش اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن جماعتیں آمنے سامنے آگئیں اور اس دوران ایک حکومتی رکن کی جانب سے نازیبا الفاظ کے استعمال پر خواتین اراکین نے احتجاج بھی کیا۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے درمیان گرما گرمی بھی دیکھی گئی۔
دوران اجلاس وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ کے الیکٹرک کی نجکاری پاکستان مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں کی گئی لیکن ایسا لگ رہا ہے جیسے کے الیکٹرک کی نجکاری تحریک انصاف کی حکومت نے کی ہو۔
مزید پڑھیں: نیپرا کا کراچی میں زیادہ لوڈشیڈنگ کی شکایات پر عوامی سماعت کا فیصلہ
اسد عمر نے کراچی میں لوڈشیڈنگ کے حوالے سے بات کرنے سے قبل طنزیہ انداز میں یہ کہا کہ ہمیں یہ بولا گیا کہ پیپلزپارٹی کو حکومت دے دو تو 6 ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کردیں گے کیونکہ ظاہر ہے ہمارے 2 سال میں آنے سے پہلے تو کراچی میں کبھی لوڈ شیڈنگ ہوئی ہی نہیں تھی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ کراچی میں کوئی 12 سے 14 گھنٹے سے بجلی گئی ہوئی تھی، ساری رات ہم سو نہیں پارہے تھے، صبح تک جاگے ہوئے تھے اور سوچ رہے تھے کہ 'بھٹو صاحب' پتہ نہیں کیا کر رہے ہیں، یہ کیسے ملک چلا رہے ہیں، ہم تو لوڈ شیڈنگ سے مر گئے ہیں اور جب ہم صبح اٹھے تو پتہ چلا ان کی حکومت ہی چلی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ تو پاکستان میں 45 سال سے لوڈشیڈنگ کر رہے ہیں۔
کے الیکٹرک پر اٹھائے گئے سوالات سے متعلق انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بتایا گیا کہ وہ لوگ ڈیووس جاتے ہیں کیونکہ ان کی باتوں سے ایسا لگ رہا ہے جیسے کے الیکٹرک کی نجکاری تحریک انصاف کی حکومت نے کی ہو۔
انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کی نجکاری پاکستان مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں کی گئی، اس کے بعد 5 سال پیپلزپارٹی کی حکومت رہی اور یہاں راجا پرویز اشرف موجود ہیں وہ بتائیں کہ اتنی مجرمانہ تنظیم نے جب کے الیکٹرک کو خریدا ہوا تھا تو انہوں نے اسے کیوں نہیں پکڑا۔
اپنے اظہار خیال میں ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 5 سال پورے کیے اور ان کے دور کے وزیر بجلی خواجہ آصف بھی یہاں موجود ہیں، ان سے بھی یہی سوال پوچھیں گے کہ اپوزیشن اراکین جب پوچھ رہے ہیں کہ کے الیکٹرک کا مالک بہت بڑا مجرم ہے تو ان دونوں نے 5، 5 سال میں اس پر کیوں ایکشن نہیں لیا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں لوڈشیڈنگ 24 گھنٹے بعد کم ہوجائے گی، گورنر سندھ
لوڈشیڈنگ کی وجوہات بتاتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ کراچی کے اندر بجلی کی ضرورت بڑھتی گئی لیکن پاکستان میں موجود حکومتوں نے کوئی قدم نہیں اٹھایا یا کراچی میں بجلی کی پیداوار بڑھائی جاتی یا باقی پاکستان سے سسٹم حاصل کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں بجلی کے پیداواری نظام بڑھتے چلے گئے لیکن کراچی ان کارخانوں سے بجلی نہیں لے سکا کیونکہ کراچی میں بجلی کی ترسیل اور منتقلی کے نظام میں جو تبدیلی لانی تھی وہ نہیں لائی گئی۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ شاید یہ تبدیلی اس لیے نہیں کی گئی، ساتھ ہی وہ بولے کہ جب ہم اپوزیشن کی بینچز پر بیٹھتے تھے تو اسی ایوان میں اس وقت کے وزیر بجلی نے کراچی کی کے-الیکٹرک کی بحث میں کہا تھا کہ 'کراچی میرا مسئلہ نہیں ہے'، تو جو کام انہوں نے نہیں کیا وہ اب ہورہا ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ بجلی کے نظام میں جو تبدیلی لانی ہے اس حوالے سے کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی نے ہنگامی اجلاس طلب کیے، کے-الیکٹرک، نیپرا اور این ٹی ڈی سی کو بلایا گیا اور اب ہنگامی بنیادوں پر معاہدے کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی تقسیم اور ترسیل کے نظام میں بہتری کے منصوبوں پر ریکارڈ مدت میں عملدرآمد ہوگا اور آپ دیکھیں گے وہ کراچی جسے حکومتیں کہتی تھیں کہ کراچی ہمارا مسئلہ نہیں اس کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کہتی ہے کہ کراچی ہمارا ہے، کراچی کے بغیر پاکستان مکمل نہیں۔
حکومتی اراکین، پچھلی حکومتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، راجا پرویز اشرف
ان کے بعد قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان یپلزپارٹی کے رہنما راجا پرویز اشرف نے کہا کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے اراکین نے لوڈشیڈنگ کے اہم مسئلے کی نشاندہی کی۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ اپوزیشن کا کام ہے حکومت سے سوال کرنا اور اس کی کارکردگی پوچھنا، اگر کوئی عوامی مسائل ہیں، کراچی یا ملک کے کسی بھی حصے میں کوئی مسئلہ ہے تو اس کے بارے میں سوال کرنا ہی اپوزیشن کا بنیادی کام ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پر اتنے سیخ پا اور جذباتی ہوجاتے ہیں کہ خواتین کی عزت و حرمت کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا تو یہ بہت افسوسناک بات ہے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ ایوان کے معزز رکن کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو رول ماڈل ہونا چاہیے اور یہ غیر ذمہ دار رویہ ترک کیا جانا چاہیے۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ اسد عمر نے آج سے 30 سال پہلے کی تاریخ بتائی، کیا ہم آگے جارہے ہیں یا پیچھے کی طرف منہ کرکے مارچ کررہے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کا پورا بورڈ کے الیکٹرک کے ماتحت ہے، نیپرا اور وزارت توانائی بھی وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں اور اس میں سندھ سے کوئی اراکین شامل نہیں ہیں تو کیا انہیں(حکومتی بینچز) کو جواب نہیں دینا چاہیے تھا لیکن جواب یہ دیا گیا کہ کے الیکٹرک جس سرزمین پر ہے وہ صوبہ سندھ ہے۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ یہ جواب ایک معزز وزیر کی جانب سے دیا گیا جس سے ہمارے علم میں اضافہ ہوا جس پر میں ذاتی طور پر ان کا شکر گزار ہوں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایوان اس لیے نہیں ہے کہ ہر بات بغیر سوچے سمجھے یہاں آکر کہہ دیں، گزشتہ دنوں ایک وزیر نے کہا کہ میں گھر آٰیا تو ایک موٹرسائیکل سوار نے مجھے یہ لفافہ دیا جس میں 5 قسم کی رپورٹس تھیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے راجا پرویز اشرف نے کہا کہ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کل ہماری طرف کسی کے گھر میں کوئی موٹر سائیکل یا سائیکل سوار آئے اور لفافہ دے، وہ یہیں اسی ایوان میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں قصیدہ گوئی یا شاعری کردے تو کیسا لگے گا، اس چیز کی اجازت نہیں ہونی چاہیے یہ ایوان کی توہین ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی اراکین کسی بھی سوال کا جواب دینے کے بجائے پچھلی حکومتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ حکومت کے 2 سال ضائع ہوگئے ہیں، ان سے کسی مسئلے کا حل پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں ہم آئندہ 2 برسوں میں بتائیں گے۔
بجلی کے مسائل ہمیں ورثے میں ملے، عمر ایوب
بعدازاں قومی اسمبلی کے اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا کہ توجہ دلاؤ نوٹس میں جو چیزیں سامنے آئیں ان سب کے حوالے سے میں نے سیاق و سباق اور حقائق پر مبنی بات کی تھی۔
عمر ایوب نے کہا کہ اسد عمر نے بھی بتایا کہ جس وقت کے الیکٹرک کی نجکاری ہوئی اس وقت صوبے اور وفاق میں پاکستان پیپلزپاٹی کی حکومت آئی، دوسری حکومت پاکستان مسلم لیگ(ن) کی آئی۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں بجلی کی پیداواری صلاحیت کو ایک طرف رکھ دیا گیا، بجلی کی ترسیل یا کوئی ایسا نکتہ اٹھائیں جہاں نیشنل گرڈ سے بجلی لینی تھی، ہم نے اسی چیز پر فیصلے کروائے اور انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنا نظام بنائیں کہ وہ نیشنل گرڈ سے بجلی لے سکیں کیونکہ کراچی ہمارا اپنا شہر ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے کراچی سے نشستیں حاصل کیں، لوگوں نے ہماری جماعت کو اکثریت کے ساتھ منتخب کیا اور آئندہ ہم وہاں جائیں گے اور پھر منتخب ہوکر آئیں گے۔
عمر ایوب نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ کہا جاتا ہے ہر چیز سیاست ہے، پیپلزپارٹی کے اراکین کو اندھیرا نظر آرہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی ٹھوس ہوگی، ہم نے ان مسائل کو حل کرنا ہے جس کے بعد یہ وہاں کھڑے ہونے کے بھی قابل نہیں ہوں گے۔
وزیر توانائی نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ وہاں دیگر سروسز کا فقدان بہت زیادہ ہے، میں پھر کہتا ہوں کہ کراچی ہمارا اپنا شہر ہے، کراچی کو 30 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دوسری جگہوں سے دی جائے گی جس سے مزید 200 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کراچی کو علیحدہ 100 ایم ایم سی ایف ڈی دے رہے ہیں بلکہ 180تک چلے گئے ہیں اور 100 میگاواٹ بھی نیشنل گرڈ سے دے رہے ہیں۔
عمر ایوب نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے نیشنل گرڈ سے بجلی پہنچانے کا نظام بنانے پر توجہ نہیں دی، اس کا حل ہم ابھی کررہے ہیں اور اس کے مستقل حل پر عملدرآمد شروع کررہے، اربوں روپے کے منصوبوں پر عملدرآمد ہوگا کہ جوہری پاور پلانٹ، نیشنل گرڈ سے بجلی فراہم کی جائے کیونکہ کراچی شہر چلے گا، وہاں کی صنعت چلے تو سارا ملک چلے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ مسائل ہمیں ورثے میں ملے اور ہم یہ بار بار یاد کراتے رہیں گے کیونکہ اس کی قصور وار پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) ہیں۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ کراچی میں مون سون کی بارشوں کے دوران کرنٹ لگنے سے حادثات کی ذمہ دار کے-الیکٹرک ہے لیکن پانی جمع ہونے کی وجہ سے اس میں ارتھ آجاتا ہے جس کی ذمہ دار حکومت سندھ ہے، کے-الیکٹرک کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ حکومت سندھ کے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہیے۔
کے الیکٹرک سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پر بحث
قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی(پی پی پی) کے 5 اراکین اسمبلی کے توجہ دلاؤ نوٹس پر وزیر توانائی عمر ایوب اور پی پی پی کے سے تعلق رکھنے والے اراکین کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے پاکستان پیپلزپارٹی کے اراکین قومی اسمبلی نے وزارت توانائی کی توجہ کے-الیکٹرک کی جانب سے غیرمعمولی اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ اور اس حوالے سے فوری کارروائی لینے میں نیشنل الیکٹرک پاور اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی ناکامی کی جانب مبذول کروائی تھی۔
پیپلزپارٹی کے آغا رفیع اللہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کے-الیکٹرک کو فرنس آئل، گیس اور یہاں تک کہ نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی کے باوجود کراچی کے عوام تاحال مشکلات کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنے کی ضروت ہے کہ کے-الیکٹرک نجکاری کے وقت طے کردہ معاہدے کے مطابق بجلی پیدا کررہی ہے یا نہیں، میں نہیں جانتا اس ملک میں اصل اختیارات کس کے پاس ہیں۔
آغا رفیع اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین کے-الیکٹرک کے سامنے دھرنا دے رہے ہیں، اگر صوبے میں نیپرا کا کوئی نمائندہ صحیح سے کام نہیں کرتا تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
ان کے بعد پیپلزپارٹی کی شازیہ مری نے کہا کہ حکومتی وزرا کارکردگی نہیں دکھارہے اور صرف تقاریر کررہے ہیں، سندھ کے وزیر امتیاز شیخ اس مسئلے پر نیپرا کو لکھ چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کے-الیکٹرک بورڈ میں حکومت سندھ کی کوئی نمائندگی نہیں یہاں تک کہ سانگھڑ میں میرے حلقے میں بجلی نہیں ہے، وزیر توانائی بتائیں کہ یہ مسئلہ کب تک حل ہوگا۔
مزید برآں رکن اسمبلی شمیم آرا پنہوار نے کہا کہ اگر کے-الیکٹرک کو پیپلزپارٹی کے حوالے کردیا جائے تو وہ 6 ماہ میں یہ مسئلہ حل کرسکتی ہے۔
ان سے قبل پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے آفتاب صدیقی نے کہا کہ وہ 10 سے 11 سال سے کے-الیکٹرک کی کارکردگی کی نگرانی کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے اسکولز، کالجز اور صنعتیں بند ہونے کے باوجود کراچی کے عوام کو 12 سے 15 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔
آفتاب صدیقی نے کہا کہ کے الیکٹرک کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوگئی ہے، کراچی کے لوگ اسے ' کلنگ الیکٹرک' کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک نے کرنٹ سے مرنے والے 19 افراد کے لواحقین کو معاوضہ ادا نہیں کیا، اس نے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہیں کیا، بجلی کی تقسیم کا نظام قابل افسوس ہے کہ کاپر کی تاریں بیچ دیں اور اب تاروں میں المونیم استعمال کیا جارہا ہے۔
اسلم خان کے بیان پر خواتین ارکان کا احتجاج
دریں اثنا قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ڈپٹی اسپیکر نے اسلم خان کی جانب سے نازیبا زبان کے استعمال پر انہیں فوری تنبیہ کی اور کہا کہ خواتین ارکان کا احترام کریں ان کے ساتھ ایسی گفتگو نہ کریں لیکن اپوزیشن ارکان نے اسلم خان کی گفتگو پر شدید احتجاج جاری رکھا۔
اسلم خان کے الفاظ پر پیپلز پارٹی کی خواتین اراکین برہم ہوئیں اور اپنی نشستوں سے اٹھ کر اسپیکر ڈائس کے سامنے پہنچ گئیں۔
جس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ اسلم خان ایوان کے تقدس کے لیے کھڑے ہوکر اپنے الفاظ واپس لیں، انہوں نے کہا کہ ہم سب کو خواتین کا احترام کرنا چاہیے اور میں سمجھتا ہوں کہ معذرت کرنے والا انسان بڑا ہوتا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر نے اسمبلی کارروائی کے دوران کہا کہ خواتین چاہے حکومت سے ہوں یا اپوزیشن سے وہ قابل احترام ہیں۔
اس پر اسلم خان نے کہا کہ میں نے ان سے متعلق کچھ نہیں کہا خواتین ارکان اسمبلی میری بہنیں اور ساتھی ہیں، میں نے کسی کو بھی براہ راست نشانہ نہیں بنایا نہ ہی کسی کا نام پکارا ہے۔
دوران اجلاس وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ میں تمام اراکین خاص طور پر تحریک انصاف کے اراکین سے کہوں گا کہ ایوان میں الفاظ کا چناؤ مناسب رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے الفاظ کے چناؤ پر جس طرح ایکشن لیا اسی طرح ایم این اے کے گھر پر فائرنگ پر بھی فوری کارروائی ہونی چاہیے۔
اس سے قبل قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے رکن اسلم خان نے اپنے گھر پر فائرنگ کے واقعے پر سیکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ کراچی سمیت ملک بھر کے تمام ایم پی ایز اور ایم این ایز کو سیکیورٹی فراہم کی جائے۔