دنیا

لیبیا میں ’نامعلوم جنگی طیاروں‘ نے ترکی کے ایئر ڈیفنس کو تباہ کردیا

جنگی طیاروں نے الوطیہ میں واقع ایئربیس پر حملہ کیا جسے ترکی کا عسکری تعاون حاصل تھا۔

لیبیا میں ’نامعلوم جنگی طیاروں‘ نے الوطیہ میں واقع ایئر بیس پر حملہ کرکے ترکی کے ایئر ڈیفنس نظام کو تباہ کردیا۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ لیبیا کی حکومت (جی این اے) نے ترکی کی عسکری مدد سے جنوبی فورسز سے کنٹرول واپس حاصل کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ترکی- طرابلس معاہدے: عرب لیگ کا لیبیا میں 'بیرونی مداخلت' روکنے پر زور

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق لیبیا کے عسکری ذرائع نے بتایا کہ الوطیہ فوجی اڈے پر جنگی طیاروں کی بمباری سے ترکی کا ایئر ڈیفنس نظام مکمل طورپر تباہ ہوگیا۔

انہوں نے بتایا کہ الوطیہ فوجی اڈے پر ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات کو شدید بمباری کی گئی۔

دوسری جانب جی این اے کے مخالف گروپ لیبین نیشنل آرمی (ایل این اے) کے کمانڈر خلیفہ حفتر نے کہا کہ ایئربیس پر حملہ نامعلوم جنگی طیاروں نے کیا۔

اس حوالے سے ایئربیس کے قریب واقع ٹاؤن کے رہائشیوں نے بتایا کہ ایئربیس کی جانب سے دھماکوں کی آواز آرہی تھی۔

واضح رہے کہ مئی میں طرابلس میں حکومتی فورسز نے ایل این اے سے الوطیہ کا دوبارہ کنٹرول حاصل کیا تھا۔

جی این اے نے 14 ماہ کی جنگ بندی کے بعد اچانک حملہ کرکے مذکورہ علاقے کا کنٹرول حاصل کیا تھا۔

ایل این اے کے پاس اپنے دفاع میں جدید ایئر ڈیفنس اور ڈرون کی ٹیکنالوجی حاصل تھی تاہم جی این اے کے حملے میں اسے ترکی کا بھرپور عسکری تعاون حاصل رہا۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی اور روس کا لیبیا میں فریقین سے جنگ بندی کا مطالبہ

ترک ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ ماہ ترک حکام اور جی این اے کے ساتھ مشاورت جاری تھی جس میں لیبیا میں دو ایئر بیس قائم کرنا بھی شامل تھا۔

انہوں نے بتایا کہ مغربی لیبیا میں الوطیہ ایئر بیس بہت اہمیت کا حامل تھا۔

واضح رہے کہ ترکی کے وزیر دفاع جمعے اور ہفتے کے روز طرابلس میں جی این اے کے ساتھ مشاورت کے لیے موجود تھے۔

مذکورہ واقعے کے بارے میں ترک وزیر دفاع نے جی این اے کی مدد کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون کرنے کی قسم کھائی تھی۔

خیال رہے کہ ایل این اے کو متحدہ عرب امارات، روس اور مصر کی حمایت حاصل ہے۔

گزشتہ سال طرابلس کی طرف پیش قدمی کے دوران ایل این اے کو مصری اور متحدہ عرب امارات کے فضائی حملوں کی مدد حاصل تھی۔

گزشتہ ماہ امریکا نے کہا تھا کہ روس نے شام کے راستے ایک ایل این اے اڈے پر کم از کم 14 ایم جی 29 اور ایس یو 24 جنگی طیارے بھیجے تھے جہاں ان کے روسی فضائیہ کے نشانات کو ہٹا دیا گیا تھا۔

غیرملکی مداخلت نے سیاسی حل کو پیچیدہ بنادیا، برطانیہ

لیبیا میں قائم برطانوی سفارت خانے کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ لیبیا میں غیر ملکی مداخلت کے باعث سیاسی تنازع کے حل میں رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں اور متحارب فریقوں کے درمیان جنگ بندی کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ لیبیا میں تیل کی پیداوار میں جبری کمی، تیل کی بندرگاہوں کی مسلسل بندش اور غیر ملکی مداخلت کی اطلاعات باعث تشویش ہے۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ تیل کی پیداوار میں جبری کمی نے گذشتہ جنوری سے چھ ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا ہے۔ اس کے نتیجے میں لیبیا کے عوام پر منفی معاشی نتائج مرتب ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی بندشوں سے لیبیا میں تیل کی تنصیبات کے ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

برطانوی سفارت خانے نے اپنے بیان میں کہا کہ لیبیا میں قومی حکومت کے دفاع کے لیے غیر ملکی جنگجوئوں کی بھرتی کی اطلاعات پر بھی تشویش ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ لیبیا کے توانائی کے شعبے میں عسکریت پسندی ناقابل قبول ہے اور اس سے مزید نقصان کا خدشہ ہے۔

خیال رہے کہ لیبیا میں ایک طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کے 2011 میں اقتدار کے خاتمے کے بعد ملک میں انتشار کی فضا میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔

سال 2014 کے بعد سے لے کر اب تک لیبیا کے مغربی اور مشرقی حصوں میں حکومتی سطح پر تنازعات برقرار ہیں، جنہیں مختلف عسکریت پسندوں اور قبائل کی حمایت بھی حاصل ہے۔

مزیدپڑھیں: عرب لیگ کی لیبیا میں فوج بھیجنے کیلئے ترک پارلیمنٹ کی منظوری کی مذمت

لیبیا کے کئی علاقوں میں شدت پسند تنظیم داعش کو بھی کنٹرول حاصل ہے۔

خیال رہے کہ ترکی، لیبیا میں اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ فیض السیراج کی گورنمنٹ آف نیشنل اکارڈ (جی این اے) کی پشت پناہی کررہی ہے جبکہ روسی فوجی کنٹریکٹرز کو مخالف گروپ جنرل خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی (ایل این اے) کی مدد کے لیے بھیجا گیا ہے۔

یاد رہے کہ لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کی حکومت کو 2011 میں شروع ہونے والی مہم 'عرب بہار' کے دوران ختم کر دیا گیا تھا۔

معمر قذافی کے خلاف مغربی ممالک نے کارروائیوں میں حصہ لیا تھا تاہم ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد لیبیا میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور خانہ جنگی شروع ہوئی جہاں ایک طرف عسکریت پسند مضبوط ہوئے تو دوسری طرف جنرل خلیفہ حفتر نے اپنی ملیشیا بنائی اور ایک حصے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔

جنرل خلیفہ حفتر کی ملیشیا نے رواں برس اپریل میں طرابلس کا محاصرہ کر لیا تھا اور حکومت کے نظام کو درہم برہم کردیا تھا اور ان کو خطے کے اہم ممالک سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کا تعاون حاصل ہے۔

عالمی سطح پر کورونا وائرس کے کیسز میں ریکارڈ اضافہ ہوا، ڈبلیو ایچ او

لاک ڈاؤن کے ستائے شہریوں کے لیے’جعلی پروازوں‘ کا اہتمام

بائیں بازوں کا ثقافتی انقلاب امریکا کی بنیادیں ہلا رہا ہے، ٹرمپ