سنتھیا رچی کے ویزا کی مدت فروری میں ختم ہوگئی تھی، ڈپٹی اٹارنی جنرل
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ امریگی بلاگر سنتھیا ڈی رچی کا ویزا رواں سال فروری میں ختم (ایکسپائر) ہوگیا تھا جبکہ امریکی بلاگر نے ویزا میں توسیع کے لیے اپلائی کیا تھا جو انٹیلی جنس ایجنسیز کی جانب سے ان کے نام کی کلیئرنس سے مشروط ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب نے سنتھیا رچی کی جانب سے ملک بدری کی درخواست کے جواب میں وزارت داخلہ کی جانب سے جواب جمع کروایا۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گزشتہ ہفتے وزارت داخلہ سے سنتھیا رچی کو جاری کردہ ویزا کی حیثیت اور شرائط و ضوابط سے متعلق تفصیلات طلب کی تھیں جبکہ کہا تھا کہ اگر وہ سیاسی بیانات دینے کی حقدار ہیں تو وضاحت کی جائے۔
درخواست گزار چوہدری افتخار احمد جو پاکستان پیپلزپارٹی(پی پی پی ) کے رکن ہیں، انہوں نے درخواست میں موقف اپنایا تھا کہ سنتھیا رچی، غیر ملکی شہری ہیں اور وہ درست ویزا کے بغیر پاکستان میں مقیم ہیں۔
مزید پڑھیں: پولیس نے سنتھیا رچی کی ریپ کی شکایت کو بےبنیاد قرار دے دیا
انہوں نے سنتھیا رچی کی ملک بدری کی درخواست کی تھی۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب نے عدالت کو بتایا کہ سنتھیا رچی کا ویزا فروری میں ختم ہوگیا تھا، انہوں نے اس میں توسیع کی درخواست کی تھی تاہم کووڈ-19 کی عالمی وبا کے باعث حکومت نے تمام ویزا کی مدت میں 31 اگست تک توسیع کردی تھی۔
انہوں نے کہ وفاقی حکومت کی ہدایات پر وزارت داخلہ نے تمام غیر ملکی شہریوں کے ویزا میں 31 اگست تک توسیع کی تھی۔
یہاں یہ مدنظر رہے کہ وزارت داخلہ میں سنتھیا رچی کی درخواست زیر التوا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ امریکی بلاگر کی درخواست کو انٹیلی جنس ایجنسیز کو بھی ارسال کیا گیا تھا اور سنتھیا رچی کا پاکستان میں مزید قیام ان کی جانب سے کلیئرنس سے مشروط ہے۔
وزارت داخلہ کے جواب کے مطابق سنتھیا رچی نے 2017 میں بزنس ویزا حاصل کیا تھا، ان کے ویزا اپیلی کیشن فارم میں پشاور میں مقیم کاروباری شخص کو ان کا اسپانسر (کفیل) ظاہر کیا گیا تھا۔
جواب کے مطابق ان کے ویزا میں وقتاً فوقتاً توسیع کی گئی تھی اور وہ آخر کار فروری میں ختم ہوگیا تھا۔
دوران سماعت وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری نے عدالت کا آگاہ کیا کہ پاکستان کے کاروبار دوست ممالک کی فہرست میں 96 ممالک شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان ممالک کے شہری ایک سے 5 سال کی مدت کے لیے بزنس ویزا حاصل کرسکتے ہیں تاہم کسی مخصوص مدت کے لیے ویزا کے اجرا کے لیے کوئی سخت قانون موجود نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: سنتھیا رچی کے ویزے پر وزارت داخلہ سے وضاحت طلب
تاہم چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزارت داخلہ کے جواب کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سنتھیا رچی رجسٹرڈ ووٹر نہیں اور انہیں سیاسی معاملات میں مداخلت اور تبصرے کی اجازت دی گئی تھی۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ سنتھیا رچی نے حالیہ ٹوئٹ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کے ڈی این اے ٹیسٹ کی تجویز دی تھی۔
سردار لطیف کھوسہ نے عدالت سے استدعا کی کہ امریکی بلاگر کے سیاسی ٹوئٹس پر پابندی عائد کرے، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے پہلے ہی وزارت داخلہ کو سنتھیا رچی کے ویزا کے شرائط و ضوابط سے آگاہ کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
بعد ازاں عدالت نے سنتھیا رچی کے ساتھ ساتھ شکایت کنندہ کے نقطہ نظر کے بعد وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ ان کی سیاسی گفتگو کے معاملے پر اسپیکنگ آرڈر جاری کرنے کی ہدایت کردی۔
ساتھ ہی عدالت نے کیس کی مزید سماعت 10 جولائی تک ملتوی کردی۔
###سنتھیا رچی تنازعخیال رہے کہ امریکی بلاگر سنتھیا رچی کافی عرصے سے پاکستان میں مقیم ہیں لیکن گزشتہ ماہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے حوالے سے ایک ’نامناسب‘ ٹوئٹ کے بعد ان کے پیپلز پارٹی سے اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے۔
پی پی پی رہنماؤں کی جانب سے ان کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا گیا جہاں سے حکام کو امریکی بلاگر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا حکم جاری ہوا، انہوں نے اس کارروائی کو روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تاہم وہ مسترد ہوگئی۔
مزید پڑھیں:بلاگر سنتھیا رچی کا پیپلز پارٹی کے رہنما رحمٰن ملک پر ریپ کا الزام
دوسرا اور سب سے اہم معاملہ سنتھیا رچی کی جانب سے سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک پر ریپ اور پی پی پی کے دور دیگر رہنماؤں پر دست درازی کرنے کا الزام عائد کیا جانا تھا۔
مذکورہ الزامات پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور رحمٰن ملک کی جانب سے امریکی بلاگر کو ہتک عزت کے نوٹسز بھجوائے گئے تھے۔
چند روز قبل پولیس نے امریگی بلاگر سنتھیا ڈی رچی کی پیپلزپارٹی کے سینیٹر رحمٰن ملک کے خلاف مجرمانہ کارروائی کے لیے دی گئی شکایت کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مذکورہ معاملے میں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج کرنے کی مخالفت کی تھی۔