توشہ خانہ ریفرنس: آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ سے قیمتی گاڑیاں اور تحائف وصول کرنے سے متعلق دائر ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کا آغاز کردیا۔
سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس پر سماعت احتساب عدالت کے جج محمد اصغر علی نے کی۔
سماعت میں نیب پراسیکیوٹر نے نواز شریف کو سمن بھجوانے کی رپورٹ عدالت میں پیش کی اور مؤقف اپنایا کہ نواز شریف برطانیہ میں موجود ہیں اس لیے دفتر خارجہ کے ذریعے وارنٹس بھیجے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے ان کے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ کرمنل کیس ہے، آصف زرداری کو پیش تو ہونا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ ریفرنس: نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کورونا کے دن ہیں اور آصف زرداری کی عمر زیادہ ہے ان کے آنے سے لوگ اکٹھے ہوں گے پھر رش ہوگا ان کی نمائندگی کے لیے میں یہاں عدالت میں موجود ہوں۔
جج اصغر علی نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کی عدم پیشی پر اشتہار جاری کر رہے ہیں، آصف علی زرداری کے وارنٹ بھی جاری کر دیتے ہیں۔
جج نے کہا کہ میں لمبی تاریخ دے دیتا ہوں پھر آصف زرداری عدالت میں پیش ہو جائیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹس پر عمل درآمد نہ ہو سکا، نواز شریف دانستہ طور پر عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بن رہے۔
چنانچہ نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرتے ہوئے جج محمد اصغر علی نے سابق وزیراعظم کے اشتہار جاری کرنے کی ہدایت کردی۔
مزید پڑھیں: توشہ خانہ ریفرنس: نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے مؤقف اپنایا کہ فاروق ایچ نائیک کہہ رہے ہیں کہ آصف زرداری کے پیش ہونے سے رش ہو جائے گا، یہ انتظامیہ کا کام ہے کہ وہ رش کو کنٹرول کریں۔
نیب پراسیکیوٹر کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے اور ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے جائیں۔
سردار مظفر نے مزید کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے استثنیٰ دیا تو آج ان کا وکیل بھی پیش نہیں ہوا اس لیے یوسف رضا گیلانی کا استثنیٰ بھی ختم کیا جانا چاہیے۔
فاروق ایچ نائیک نے مؤقف اپنایا کہ آصف علی زرداری کو ہائی کورٹ نے میڈیکل گراؤنڈز پر ضمانت دی تھی، وارنٹس تو تب جاری کیے جائیں جب آصف زرداری پیش نہ ہوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں آصف زرداری کی جانب سے یہاں موجود ہوں آئندہ سماعت پر آصف علی زرداری خود بھی عدالت میں پیش ہو جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور آصف زرداری توشہ خانہ کیس میں طلب
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یوسف رضا گیلانی کورونا وائرس کا شکار ہو گئے تھے، میں بھی یوسف رضا گیلانی کے ساتھ تھا اس لیے میں بھی آئیسولیشن میں چلا گیا تھا تاہم اگر عدالت کہتی ہے تو میں عدالت میں یوسف رضا گیلانی کی طرف سے بیان حلفی دے دیتا ہوں۔
جس کے بعد عدالت نے آصف علی زرداری کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے، اس پر فاروق ایچ نائیک نے مؤقف اپنایا کہ آصف زرداری نے حاضری سے استثنی کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔
جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی حاضری سے استثنی کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے استدعا کی کہ آصف زرداری کے وارنٹ جاری نہ کریں وہ سابق صدر پاکستان ہیں وہ کہیں بھاگ نہیں رہے۔
جج اصغر علی نے ریمارکس دیے کہ میں نے اب آرڈر کر دیا ہے وہ اب واپس نہیں ہو گا، عدالت نے آپ سے ایڈریس مانگ کر اس پر سمن جاری کیا تھا لیکن وہ پھر بھی پیش نہیں ہوئے۔
بعدازاں احتساب عدالت نے ریفرنس پر سماعت 17 اگست تک ملتوی کر دی۔
توشہ خانہ ریفرنس
خیال رہے کہ احتساب عدالت میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے دائر کردہ ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو غیر قانونی طور پر گاڑیاں الاٹ کرنے کا الزام ہے۔
اس ریفرنس میں اومنی گروپ کے سربراہ خواجہ انور مجید اور خواجہ عبدالغنی مجید کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: آصف زرداری، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی کے خلاف نیب کا نیا ریفرنس دائر
ریفرنس میں کہا گیا کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے کاروں کی صرف 15 فیصد قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کیں۔
بیورو نے الزام عائد کیا کہ یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری کو سہولت فراہم کی اور تحائف کو قبول کرنے اور ضائع کرنے کے طریقہ کار کو غیر قانونی طور پر نرم کیا۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ آصف زرداری نے ستمبر، اکتوبر 2008 میں متحدہ عرب امارات سے مسلح گاڑیاں (بی ایم ڈبلیو 750 لی ماڈل 2005، لیکسز جیپ ماڈل (2007) اور لیبیا سے (بی ایم ڈبلیو 760 لی ماڈل 2008) حاصل کی۔
مذکورہ ریفرنس کے مطابق وہ فوری طور پر اس کی اطلاع دینے اور کابینہ ٖڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کروانے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہ تو گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا نہ ہی انہیں نکالا گیا۔
نیب ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ سال 2008 میں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا اس کے باوجود اپریل تا دسمبر 2008 میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی درخواست دیے بغیر اپنے فائدے کے لیے کابینہ ڈویژن کے تحت طریقہ کار میں بے ایمانی اور غیر قانونی طور پر نرمی حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیں: سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی میں کورونا وائرس کی تشخیص
ریفرنس کے مطابق خواجہ انور مجید نے ایم ایس انصاری شوگر ملز لمیٹڈ کے اکاؤنٹس استعمال کرتے ہوئے آواری ٹاور کے نیشنل بینک کے ایک اکاؤنٹ سے 92 لاکھ روپے آصف زرداری کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایک اکاؤنٹ کے ذریعے آصف زرداری کی جانب سے ایک کروڑ 11 لاکھ 17 ہزار 557 روپے کی ادائیگی کی، ملزم نے اپنی غیر قانونی اسکیم کے سلسلے میں آصف زرداری کے ناجائز فوائد کے لیے مجموی طور پر 2 کروڑ 3 لاکھ 17 ہزار 557 روپے ادا کیے۔
دوسری جانب خواجہ عبدالغنی مجید نے آصف زرداری کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے 3 ہزار 716 ملین (371 کروڑ 60 لاکھ) روپے کی خطیر ادائیگیاں کیں۔
نیب نے ان افراد پر بدعنوانی کا جرم کرنے اور نیب قوانین کے تحت واضح کی گئیں کرپٹ پریکٹسز میں ملوث رہنے کا الزام لگایا۔
نیب نے عدالت سے درخواست کی کہ ان ملزمان پر مقدمہ چلا کر سخت ترین جیل کی سزا دی جائے۔
خیال رہے کہ نواز شریف طبی بنیاد پر علاج کے لیے لندن میں ہیں جبکہ آصف علی زرداری ضمانت پر رہا ہیں۔
اس سے قبل 11 جون کو احتساب عدالت نے توشہ خانہ سے قیمتی گاڑیاں اور تحائف وصول کرنے سے متعلق ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔