ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ کی حکم امتناع کی درخواست مسترد
سپریم کورٹ نے ڈینیئل پرل قتل کیس میں سندھ حکومت کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی ہے۔
جسٹس مشیر عالم کی زیر سربراہی قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے حکومت سندھ کی درخواست پر سماعت کی جہاں بینچ میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی موجود تھے۔
مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: عمر شیخ کی سزائے موت 7 سال قید میں تبدیل، 3 ملزمان رہا
بینچ نے حکومت سندھ کی جانب سے ڈینیئل پرل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر حکم امتناع کی درخواست کو مسترد کردیا۔
واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے ڈینیئل پرل کیس میں 2 اپریل2020 کو امریکی صحافی کے قتل میں نامزد 3 ملزمان کی رہائی کا حکم دیا تھا اور ایک ملزم احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔
سندھ حکومت کے وکیل نے سپریم کورٹ میں مؤقف اختیار کیا کہ ملزمان بین الااقوامی دہشت گرد ہیں اور انہیں مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت رکھا گیا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ ملزمان کی بریت کے بعد آپ ان کو کیسے دہشت گرد کہہ سکتے ہیں۔
اس پر وکیل نے جواب دیا کہ ان میں سے ایک ملزم انڈیا اور دوسرا افغانستان میں بھی دہشتگرد تنظیم کے ساتھ کام کرتا رہا ہے اور اگر ملزمان آ زاد ہوئے تو سنگین اثرات ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس: سندھ حکومت نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا کہ یہ ذہن میں رکھیں کہ ملزمان کو ایک عدالت نے بری کیا ہے۔
اس موقع پر ملزمان کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے ایسا بیان کیسے دیا جا سکتا ہے، ملزمان نے 18 سال سے سورج نہیں دیکھا، حکومت میں خدا کا کچھ خوف ہونا چاہیے۔
اس موقع پر بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ بریت کے حکم کو ٹھوس وجہ کے بغیر کیسے معطل کیا جا سکتا ہے اور فیصلے میں کوئی سقم ہو تب ہی یہ معطل ہو سکتا ہے۔
جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ اگر حکومت چاہے تو ایم پی او میں توسیع کر سکتی ہے اور کیس کی سماعت ستمبر تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینیئل پرل کو قتل کرنے والے عمر سعید شیخ کی سزا میں تبدیلی کے خلاف حکومتِ سندھ نے درخواست دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے جلد سماعت کی استدعا کی تھی۔
مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے ملزمان 3 ماہ کیلئے زیرحراست
یکم جون کو پچھلی سماعت پر اعلیٰ عدلیہ نے سندھ ہائی کورٹ سے مقدمے کی اپیل سمیت تمام ریکارڈ اور ثبوت طلب کیے تھے۔
حکومتِ سندھ کے ساتھ ساتھ مقتول صحافی کے والدین رُتھ پرل اور جوڈیا پرل نے سینئر وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
صوبائی حکومت کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی کہ وہ 2 اپریل کو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت پر موسم گرما کی تعطیات کے دوران یا اس کے بعد غور کرے۔
حکومت نے پراسیکیوٹر ڈاکٹر فیاض شاہ کے ذریعے اپنی اپیل میں سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کے اس حکم کو کالعدم قرار دے جس میں عمر شیخ کی سزائے موت کو تبدیل کرتے ہوئے 7سال قید اور 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کی ڈینیئل پرل قتل کیس کے فیصلے پر تنقید
حکومت نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمر شیخ اور ان کے ساتھ سازش میں شریک تینوں افراد فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان عاقب کی سزا میں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے تبدیلی کے بعد خدشہ ہے کہ وہ فرار ہو جائیں گے جہاں ان تینوں شریک ملزمان کو پہلے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کرنے والے 38سالہ صحافی ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں اغوا کیا گیا تھا اور ان کے سر کاٹنے کے مناظر پر مبنی ویڈیو ایک ماہ بعد امریکی قونصلیٹ بھیجی گئی تھی ، عمر شیخ کو 2002 میں گرفتار کیا گیا تھا اور ٹرائل کورٹ نے انہیں موت کی سزا سنائی تھی۔
حیدرآباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور گزشتہ ماہ فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
عدالت میں ملزمان کے وکلا رائے بشیر اور خواجہ نوید احمد نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ استغاثہ ان کے موکل کے خلاف کیس ثابت کرنے میں بری طرح ناکام ہوا اور استغاثہ کے زیادہ تر گواہ پولیس اہلکار تھے جن کی گواہی پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
ملزمان کے وکلا کا مزید کہنا تھا کہ اپیل کنندہ نسیم اور عادل شیخ پر ای میلز اور میسیجز کے ساتھ لیپ ٹاپ کمپیوٹر کی برآمدگی زبردستی ظاہر کی گئی جبکہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے ان کے اعترافی بیانات میں بھی جھول ہیں اور وہ رضاکارانہ طور پر نہیں دیے گئے۔
مزید پڑھیں: مقتول ڈینیئل پرل کے والدین کا بھی ہائیکورٹ کے فیصلے کےخلاف سپریم کورٹ سے رجوع
وکلا کا مزید کہنا تھا کہ مدعی نسیم سے 11 فروری 2002 کو لیپ ٹاپ کمپیوٹر کی برآمدگی ظاہر کی گئی جبکہ کمپیوٹر ماہر رونلڈ جوزف نے کہا تھا کہ انہیں 4 فروری کو کمپیوٹر ویریفکیشن کے لیے دیا گیا تھا جس کے بعد 6 روز تک انہوں نے لیپ ٹاپ کا جائزہ لیا تھا۔
وکلا کا کہنا تھا کہ اس قسم کے ثبوتوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا جبکہ عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملزمان کی سزا کالعدم قرار دی جائے۔
سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلیں جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا جس پر حکومت سندھ نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
یاد رہے کہ مقتول صحافی کے والدین نے بھی قتل کیس میں اعلیٰ عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور مجرمان کی سزا بحال کرنے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی تھی۔