پاکستان کو انسداد اسمگلنگ اقدامات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، رپورٹ
واشنگٹن: امریکا نے سال 2020 کی اپنی اسمگلنگ ان پرسنز (ٹی آئی پی) رپورٹ میں پاکستان کا درجہ کم کرتے ہوئے اسے ٹائیر 2 سے ٹائیر 2 واچ لسٹ میں شامل کردیا جبکہ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف جنگ میں پاکستان ’اہم اقدامات‘ کر رہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹی آئی پی رپورٹ کو ٹائیر ایک، ٹیئر 2، ٹائیر 2 واچ لسٹ اور ٹائیر 3 میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ٹائیر 2 واچ لسٹ والے ممالک وہ ہیں جن کی حکومتیں ٹریفکنگ متاثرین سے تحفظ کے ایکٹ (ٹی وی پی اے) کے کم سے کم معیارات پر پورا اترتی ہیں تاہم خود کو ان معیارات کی تعمیل میں لانے کے لیے اہم کوششیں کر رہی ہیں مگر اس کے باوجود اسمگلنگ کے متاثرین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔
مزید پڑھیں: سینیٹ سے ہیومن ٹریفکنگ کے حوالے سے بل منظور
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کی کوششوں میں پہلی بار اسمگلروں کو حکومت کے وسیع انسانی اسمگلنگ قانون کے تحت مجرم قرار دینا، گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ اسمگلروں کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزا دینا اور مزدوروں کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ملک بھر میں ان کی رجسٹریشن کو بڑھانا شامل ہے۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے نوٹ کیا کہ پاکستانی حکومت نے گزشتہ رپورٹنگ کی مدت کے مقابلے میں اس بار بھی زیادہ اسمگلنگ متاثرین کی نشاندہی کی اور بیرون ملک مقیم پاکستانی اسمگلنگ متاثرین کے لیے مشتبہ اسمگلروں کے خلاف 8 تحقیقات کا آغاز کیا، اس کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکام نے بین الاقوامی شراکت داروں اور غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ انسداد اسمگلنگ کی کوششوں پر تعاون جاری رکھا۔
رپورٹ کے مطابق حکومت نے گزشتہ رپورٹنگ کی مدت کے مقابلے میں مجموعی طور پر کوششیں بڑھانے کا مظاہرہ نہیں کیا۔
حکومت نے سیکس ٹریفکرز کی تحقیقات اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں نمایاں کمی کی اور پنجاب، جہاں ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی مقیم ہے، نے تقریباً تمام انسداد اسمگلنگ قانون نافذ کرنے کے اقدامات رپورٹ کیے جن میں 98 فیصد سزائیں بھی شامل ہیں جبکہ صرف 2 صوبوں میں ہی اسمگلروں کو سزائیں ہوئی ہیں۔
پنجاب، واحد صوبہ ہے، جو ٹریفکنگ کے خلاف کوششوں کو رپورٹ کرتا ہے اور اس نے گزشتہ رپورٹنگ کی مدت کے مقابلے میں اس مرتبہ مجموعی طور پر مزید سزائیں رپورٹ کی ہیں تاہم مجموعی طور پر سزائیں گزشتہ سالوں سے کم ہوئی ہیں۔
سندھ میں مقامی عہدیدار کھیتوں میں کام کے علاوہ دیگر مزدوری کو پابند کرنے کا جرم کرتے رہے اور گزشتہ رپورٹنگ مدت کے برعکس حکومت نے اسمگلنگ میں سرکاری طور پر ملوث ہونے کی مصدقہ اطلاعات کے خلاف کارروائی نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں: گرے ٹریفکنگ کے سبب سالانہ ایک ارب ڈالرز کا نقصان
ان کا کہنا تھا کہ تنظیموں نے سرکاری طور پر اس میں ملوث ہونے اور بدعنوانی کی اطلاع دی جس کے نتیجے میں سال کے دوران اسمگلنگ کے متعدد ہائی پروفائل کیسز خارج کردیے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’حکومت متاثرین کی دیکھ بھال کے لیے مجموعی طور پر مناسب وسائل کی کمی کا شکار رہی اور صرف 4 فیصد متاثرین کو دیکھ بھال کےلیے بھیجا گیا جس کی وجہ سے پاکستان کی فہرست میں تنزلی ہوئی اور اسے ٹائیر 2 واچ لسٹ میں رکھا گیا ہے‘۔
امریکا، پاکستان کو مرد، خواتین اور بچوں کی جبری مشقت، مزدوری اور جسم فروشی کے لیے اسمگلنگ کا ایک ذریعہ ٹرانزٹ سمجھتا ہے۔
پابند کیے گئے مزدور متاثرین کا تخمینہ 10 لاکھ سے زیادہ ہے۔
اسمگلنگ سے متعلق امریکا کی سالانہ رپورٹس میں یہ دعوی کیا گیا کہ پاکستان میں لڑکے اور لڑکیوں کو منظم غیر قانونی بھیک مانگنے، گھریلو ملازمت، جسم فروشی اور زراعت میں پابند مزدوری کی غرض سے خرید، فروخت اور کرائے پر یا اغوا کیا جاتا ہے۔