فیس بک کے خلاف کمپنیوں کا بائیکاٹ شدت اختیار کرگیا
فیس بک کی جانب سے نفرت انگیز پوسٹس پر ناکافی اقدامات کی وجہ سے بڑی کمپنیوں کی جانب سے اشتہارات کے بائیکاٹ کا سلسلہ جاری ہے۔
مارک زکربرگ کی جانب سے حال ہی میں وعدہ کیا گیا تھا کہ سیاستدانوں کی جانب سے کمپنی کے اصولوں کی خلاف ورزی پر مبنی پوسٹس پر لیبلز کا اضافہ کیا جائے گا، مگر کمپنیوں کی جانب سے سوشل نیٹ ورک کے بائیکاٹ کے اعلانات کا سلسلہ جاری ہے۔
اب تک یوی لیور، ویرائزن، کوکا کولا، ہرسلے اور ہونڈا سمیت 120 سے زائد کمپنیوں نے فیس بک کو عارضی طور پر اشتہارات نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔
کمپنیوں کی جانب سے یہ اعلانات سول رائٹس گروپس کے زیرتحت بائیکاٹ مہم کے لیے کیے گئے۔
کچھ کمپنیوں جیسے کوکا کولا نے فیس بک کو اشتہارات دینے کا سلسلہ روک دیا ہے مگر واضح طور پر بائیکاٹ میں شمولیت اختیار نہیں کی۔
اس حوالے سے کوکا کولا کمپنی کے سی ای او جیمز کیوئنسی کا کہنا تھا کہ دنیا اور سوشل میڈیا میں نسل پرستی کی کوئی جگہ نہیں، کوکا کولا کمپنی نے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے یے پیڈ اشتہارات کو کم از کم 30 دن کے لیے روک دیا ہے، ضرورت پڑنے پر ہم اپنی اشتہاری پالیسیوں پر نظرثانی کریں گے، ہمیں اپنے سوشل میڈیا شراکت داروں سے زیادہ شفافیت اور احتساب کی توقع ہے۔
فیس بک پر کمپنیوں کی جانب سے نسل پرستانہ اور نفرت انگیز پوسٹس کی روک تھام کے لیے دباؤ بڑھایا جارہا ہے۔
ایک بیان میں کمپنی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم سوشل رائٹس گروپس کے ساتھ مل کر کام جاری رکھیں گے۔
ترجمان نے کہا 'ہم ہر سال اربوں ڈالرز اپنی کمیونٹی کو محفوظ رکھنے کے لیے لگاتے ہیں اور مسلسل باہر کے ماہرین کے ساتھ مل کر اپنی پالیسیوں پر نظرثانی اور اپ ڈیٹ کرتے ہیں، ہم نے خود کو سول رائٹس آڈٹ کے لیے کھول دیا ہے۔ اب تک ہم 250 سفید فام نسل پرست اداروں کو فیس بک اور انسٹاگرام میں بین کرچکے ہیں، اے آئی ٹیکنالوجی سے ہم 90 فیصد کے قریب نفرت انگیز مواد کے خلاف ایکشن صارفین کی جانب سے رپورٹ سے قبل لیتے ہیں'۔
ترجمان کے مطابق 'یورپی یونین کی حالیہ رپورٹ کے مطابق فیس بک کی 24 گھنٹے میں نفرت انگیز مواد تک پہنچ ٹوئٹر اور یوٹیوب سے زیادہ ہوتی ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہمیں مزید کام کرنا ہوگا اور ہم سول رائٹس گروپس کے ساتھ مل کر کام جاری رکھیں گے'۔
فیس بک کے خلاف اس بائیکاٹ مہم کو سول رائٹس گروپس کے ایک گروپ نے شروع کیا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج فیس بک کی جانب سے نسل پرستانہ، پرتشدد اور تصدیق شدہ جھوٹا مواد پوسٹ کرنے کی اجازت دینے کی طویل تاریخ پر کیا جارہا ہے۔
مہم میں شامل افراد نے مارک زکربرگ کے حالیہ لائیو اسٹریم بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں فیس بک کےبانی نے اشتہارات میں نفرت انگیز پیغامات کی روک تھام کے لیے نئے قوانین کا اعلان کیا اور کہا کہ سیاستدانوں کی کچھ پوسٹس پر لیبلز لگائے جائیں گے۔
سول رائٹس گروپس کے مطابق ہماری جانب ے فیس بک سے متعدد اقدامات کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ نفرت انگیز مواد کے حوالے سے مزید معلومات جاری کی جائے اور سوشل نیٹ ورک پر بڑے گروپ کی باریک بینی سے اسکروٹنی کی جائے۔
ابھی یہ تو واضح نہیں کہ اس بائیکاٹ سے فیس بک پر کس حد تک اثرات مرتب ہوے ہیں، مگر یہ کمپنی اشتہارات سے اربوں ڈالرز کماتی ہے۔
خاص طور پر چھوٹے اداروں کے اشتہارات سے، تو ایک ماہ کا بائیکاٹ بظاہر تو کوئی خاص اثرات مرتب نہیں کرسکے گا، مگر یہ دباؤ کمپنی کے لیے خوشگوار نہیں ہوگا خصوصاً اس وقت جب کمپنی خود کہہ چکی ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں اشتہاری آمدنی میں کمی آئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فیس بک کے ایک عہدیدار نے مبینہ طور پر کچھ عرصے پہلے کہا تھا کہ آمدنی کے دباؤ پر پالیسی میں تبدیلیاں نہیں لائی جائیں گی اور اب دیکھنا ہوگا کہ یہ دعویٰ کس حد تک درست ہوتا ہے۔