جہانگیر ترین کے لندن روانہ ہونے پر مسلم لیگ (ن) کی نیب کے کردار پر تنقید
لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چینی اسکینڈل کے مرکزی ملزم قرار دیے جانے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے ’خاموشی‘ سے لندن روانہ ہونے پر سوالات کھڑے کردیے۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) پنجاب کی انفارمیشن سیکریٹری عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ’جب جہانگیر ترین اپنے بیٹے کے ہمراہ لندن روانہ ہوئے تو قومی احتساب بیورو(نیب) کہاں تھا جسے عید کے بعد ٹارزن بننا تھا(شیخ رشید کے بیان کے مطابق)‘۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انہوں نے مزید کہا کہ ’ٹارزن کا وزیراعظم عمران خان، جہانگیر ترین اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے احتساب کا معیار الگ ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نیب عمران خان کی جانب سے حکومت خیبر پختونخوا کے ہیلی کاپٹر کے غلط استعمال اور چینی اسکینڈل کے مرکزی ملزم جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے کردار کے حوالے سے تحقیقات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چینی بحران: کمیشن نے وزیر اعظم عمران خان کو ’مجرم‘ قرار دیا ہے، مریم اورنگزیب
عظمٰی بخاری نے کہا کہ خود جہانگیر ترین نے اپنی پارٹی کی حکومت پر ٹیکسز میں اضافے کا الزام لگایا جس کی وجہ سے چینی کی قیمت میں اضافہ ہوا۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے چینی 85 روپے کلو ہونے کے باوجود اس پر 2 ارب روپے کی سبسڈی دی جبکہ شریف خاندان کی شوگر ملز کو کوئی سبسڈی ملی نہ انہوں نے چینی برآمد کی لیکن عمران خان اور ملک کی پوری سیاست شریف خاندان کے گرد گھومتی ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کو شہباز شریف کو ہدف بنانے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے رہنما مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ وہ آج کل عدالت میں ایک کیس میں جواب جمع کروانے سے چھپتے پھر رہے ہیں۔
پریس کانفرنس میں عطا تارڑ نے وزیراعظم کو کہا کہ شہباز شریف کی جانب سے اپنے خلاف دائر کردہ ہتک عزت کے کیس میں جواب جمع کروائیں۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن نے چینی کمیشن کی رپورٹ کو ’گمراہ کن‘ قرار دے دیا
ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان عدالت میں سچ بولنے سے بچ رہے ہیں اور شہباز شریف کو گرفتار نہ کرنے پر پنجاب پولیس کے 2 افسران کو ان کے عہدوں سے برطرف کردیا گیا‘۔
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے لیے اتوار کے روز (آج) اجلاس بلایا ہے۔
چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے۔
دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:خود پر لگنے والے ہر الزام کو غلط ثابت کروں گا، جہانگیر ترین
واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔
تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔