دنیا

چین نے وبا سے متعلق معلومات ڈبلیو ایچ او سے چھپائی، ریکارڈنگ میں انکشاف

6 جنوری کو ڈبلیو ایچ او حکام نے شکایت کی کہ چین کورونا وائرس سے متعلق معلومات کا تبادلہ نہیں کررہا، خبررساں ادارہ اے پی

امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے انکشاف کیا ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کو کورونا وائرس کے ابتدائی دنوں میں چین سے متعلقہ معلومات کے حصول کے لیے جدوجہد کرنی پڑی تھی۔

اے پی کی جانب سے ڈبلیو ایچ او اور چین کے مابین ہونے والے گفتگو کی ریکارڈ کا حوالہ دے کر بتایا کہ 6 جنوری کو ڈبلیو ایچ او حکام نے شکایت کی تھی کہ چین کورونا وائرس سے متعلق معلومات کا تبادلہ نہیں کررہا۔

مزیدپڑھیں: چین اور امریکا کے درمیان کورونا وائرس کے حوالے سے لفظی جنگ میں تیزی

بعدازاں چین نے 20 جنوری تک ڈبلیو ایچ او کو تصدیق کی کہ وائرس متعدی ہے اور اس کے بعد 30 جنوری کو ڈبلیو ایچ او نے کورونا کو گوبل ایمرجنسی نافذ کردی۔

چین میں ڈبلیو ایچ او کے اعلی عہدیدار گاؤڈین گلیہ نے ایک ریکارڈنگ میں کہا کہ ’ہم فی الحال اس مرحلے پر ہیں کہ وہ (چین) ہمیں 15 منٹ پہلے ہی وہ معلومات دے رہا ہے جو سی سی ٹی وی (چین کے سرکاری میڈیا) پر نشر ہونے والی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہماری قیادت اور عملے نے تنظیم کے قواعد و ضوابط کی تعمیل میں دن رات کام کیا ہے تاکہ تمام ممبر ممالک کے ساتھ یکساں طور پر معلومات شیئر کی جاسکے اور حکومتوں کے ساتھ تمام سطح پر تبادلہ خیال کیا۔

واضح رہے ڈبلیو ایچ او نے کورونا وائرس سے متعلق چین کے ردعمل پر تعریف کی تھی اور اسے اس پر تنقید کا سامنا بھی رہا تھا۔

چین میں ڈبلیو ایچ او کے دفتر کی جانب سے ’اے پی‘ کی ریکارڈنگ پر تاحال کوئی تبصرہ موصول نہیں ہوا۔

اے پی کے مطابق ’ڈبلیو ایچ او اور اس کے عہدیداروں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے ریکارڈ شدہ اجلاس کی آڈیو یا تحریری نقل کے بغیر پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینے سے انکار کردیا‘۔

امریکی ادارے اے پی کے مطابق ’وہ اپنے ذرائع کا انکشاف نہیں کرسکتا اس لیے مطلوبہ معلومات فراہم نہیں کرسکتا‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی فوج کورونا وائرس کو ’ووہان‘ لے کر آئی، چین کا دعویٰ

جنوری کے اوائل میں ، ہنگامی صورتحال کے ڈبلیو ایچ او کے چیف مائیکل ریان نے کہا تھا کہ ’انہیں 2002 میں سارس وبا کے دوبارہ ہونے کا خدشہ ہے جسے چینی حکام نے ابتدائی طور پر چھپا لیا تھا‘۔

اے پی کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’بالکل وہی منظر نامہ ہے، جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں چین سے اپ ڈیٹ حاصل کرنے کی کوشش کررہےہیں‘۔

ووہان شہر کا شمار نہ صرف چین بلکہ دنیا کے بڑے شہروں میں بھی ہوتا ہے، وہاں کی آبادی سوا ایک کروڑ تک ہے، اسی شہر میں متعدد طبی، حیاتیاتی و ٹیکنالوجی کی تحقیقات کے ادارے بھی موجود ہیں۔

ابتدائی طور پر کورونا وائرس کے کیسز اسی شہر میں رپورٹ ہوئے تھے اور یہاں پر ڈھائی ماہ کے دوران 80 ہزار سے زائد افراد کورونا سے متاثر ہوئے تھے اور اسی دوران ووہان شہر میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا تھا۔

بعدازاں امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے نظریہ پیش کیا تھا کہ یہ وائرس اصل میں چینی لیبارٹری میں تیار کیا گیا حالانکہ عالمی ادارہ صحت اور امریکی حکومت کے اعلیٰ ماہر امراضِ کا کہنا تھا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا ہم نے تیار نہیں کیا، اس طرح کے وائرس پر تحقیق ضرور کرتے ہیں، ووہان لیب

چینی شہر ووہان کے انسٹی ٹیوٹ آف ورولاجی نے پہلی بار وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں کوئی صداقت نہیں کہ کورونا وائرس کو ان کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔

اس دوران ڈبلیو ایچ او نے کورونا وائرس کے عدم پھیلاؤ سےمتعلق چینی اقدامات کی تعریف بھی۔

علاوہ ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ او پر کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتے ہوئے فنڈ روکنے کا اعلان کردیا جس پر ماہرین صحت نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

اس پر **ڈبلیو ایچ او* کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گھیبریسَس نے زور دیا کہ ڈبلیو ایچ او کو عالمی وبا کورونا وائرس کے حوالے سے جو بھی معلومات تھیں اس سے متعلق امریکا سے کچھ نہیں چھپایا۔

کیا کورونا وائرس اب پہلے جیسا جان لیوا نہیں رہا ؟

نئے نوول کورونا وائرس اور ہوا میں نمی کے درمیان تعلق دریافت

کورونا وائرس میں کمزوری کا دعویٰ عالمی ادارہ صحت نے مسترد کردیا