پاکستان

ملک بھر کے ہسپتالوں کا ڈیٹا یکجا کرنے کیلئے 'ریسورس مینجمنٹ سسٹم' متعارف

پاکستان میں کووڈ-19 کیلئے مختص وینٹی لیٹرز میں سے صرف 28 فیصد اس وقت زیر استعمال ہیں،معاون خصوصی صحت

حکومت نے ملک بھر کے تمام ہسپتالوں کے ڈیٹا کو ایک جگہ جمع کرنے اور افواہوں کے سدباب کے لیے ایک نیا ریسورس مینجمنٹ سسٹم متعارف کرا دیا جس کی بدولت تمام ہسپتالوں اور وینٹی لیٹرز کی معلومات ایک جگہ میسر آسکیں گی۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 24 گھنٹوں میں 15ہزار ٹیسٹ کیے گئے جس میں 3 ہزار 39 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: پاکستان میں کیسز 70 ہزار سے بڑھ گئے، اموات 1500 سے متجاوز

انہوں نے بتایا کہ 42 ہزار 742 کیسز میں سے ہسپتالوں میں 4 ہزار 480 مریض داخل ہیں، جن میں سے 723 کی بیماری کی نوعیت کافی شدید ہے اور ان میں سے 201 وینٹی لیٹرز پر ہیں اور بقیہ مریضوں کو آکسیجن فراہم کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 24 گھنٹے میں 88 اموات رپورٹ ہوئیں جو پاکستان میں ایک دن میں ہونے والی اموات کی اب تک سب سے بڑی تعداد ہے۔

ان کہنا تھا کہ یہاں مختلف خبریں زیر گردش کرتی ہیں کہ پاکستان کا نظام صحت انتہا کو پہنچ چکا ہے، آئی سی یو بیڈز ختم ہو چکے ہیں، پاکستان میں وینٹی لیٹرز ختم ہو گئے ہیں لیکن ایسی قطعاً کوئی بات نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کووڈ-19 کے لیے مختص کیے گئے وینٹی لیٹرز میں سے صرف 28 فیصد اس وقت زیر استعمال ہیں اور اس کے علاوہ وینٹی لیٹرز فارغ پڑے ہیں لیکن بڑے شہروں کے بڑے ہسپتالوں میں اکثر دباؤ پڑ جاتا ہے جس سے یہ تشویش شروع ہو جاتی ہے پاکستان میں کوئی بحرانی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ ہم نے ریسورس مینجمنٹ سسٹم وضع کیا ہے جس کا مقصد جو بلاوجہ تشویش شروع ہوجاتی ہے اس کا حل نکالا جائے اور یہ سسٹم پاکستان کے تمام ہسپتالوں کے بارے میں بنیادی معلومات جیسے کہ کتنے بستر ہیں، کتنے وینٹی لیٹرز ہیں ان سب کے بارے میں ریئل ٹائم میں معلومات مل سکے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ’وزیراعظم نے چینی بحران میں ملوث افراد کےخلاف بلا امتیاز کارروائی کی ہدایت کی‘

اس موقع پر نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے چیف ایگزیکٹو افسر شباہت علی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس ریسورس مینجمنٹ سسٹم کا مقصد ایک ایسا نظام تیار کرنا تھا کہ جس کی بدولت تمام صوبوں اور ان کے ہسپتالوں میں بستروں، وینٹی لیٹرز سمیت تمام معلومات ایک جگہ میسر آ سکیں اور اس کا صوبوں کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ صوبے ایک ہی جگہ اپنے تمام تر وسائل کو دیکھ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ہم نے آغاز کیا تھا تو ہمیں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی سے ہسپتالوں کا بہت سارا ڈیٹا مل گیا تھا جو نامکمل تھا تو ہم نے سب سے پہلے ہر صوبے میں جتنے بھی ہسپتال ہیں ان کی فہرست بنائی اور ان کے مالکان کو ایک لاگ ان آئی ڈی دے کر سینٹرالائزڈ ڈیٹا بیس سسٹم تک ان کو رسائی دی جس کے بعد انہوں نے ہسپتالوں کے ڈیٹا کا خود اندراج شروع کیا لیکن یہ قلیل مدتی حل تھا۔

شباہت علی کا کہنا تھا کہ طویل المدتی حل یہ تھا کہ صوبوں میں تمام انفرادی سسٹم ان کے ساتھ سینٹرالائزڈ ڈیٹا بیس کو لنک کریں اور جیسے جیسے صوبوں کے ہسپتالوں کے سسٹم اپ ڈیٹ ہوتے ہیں، ویسے ہی ہمارا سینٹرالائزڈ سسٹم اس کے ساتھ اپ ڈیٹ ہو۔

مزید پڑھیں: امریکا میں مظاہروں میں شدت، 16 ریاستوں کے 25 شہروں میں کرفیو نافذ

انہوں نے کہا کہ جب ہمیں تمام جگہ سے ڈیٹا موصول ہوا تو ہم نے اسے میپ پر بنایا جس کی بدولت آپ یہ پتہ لگا سکیں گے کہ ایک علاقے میں کتنے ہسپتال ہیں اور ان میں کتنے بستر، وینٹی لیٹرز سمیت کتنی سہولیات میسر ہیں اور ہم نے 4 سے 6 ماہ میں مکمل کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس ڈیٹا کا استعمال یقینی بنانے کے لیے نیشنل ایمرجنسی رسپانس کے نام سے ایک موبائل ایپ بنائی ہے اور اسے نجی اور سرکاری اداروں میں وہ تمام افراد استعمال کر سکیں گے جو ایمرجنسی رسپانس کی فراہمی جیسے ایدھی وغیرہ سے منسلک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کی بدولت کوئی بھی کورونا کا مریض ملتا ہے تو وہ اس کی بدولت پتہ چلا سکتے ہیں کہ قریب ترین بستر اور وینٹی لیٹر کہاں دستیاب ہے۔