انصاف کے موجودہ نظام پر عوام کا اعتماد بہت حد تک متزلزل ہوچکا ہے، عمران خان
وزیر اعظم عمران خان نے آئینی اصلاحات اور خواتین قیدیوں کی حالت زار پر غور پر کرنے کے لیے دو کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ انصاف کے موجودہ نظام پر عوام کا اعتماد بہت حد تک متزلزل ہوچکا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم، مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان اور اٹارنی جنرل پر مشتمل تشکیل دی گئی کمیٹی قانونی اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے روڈ میپ مرتب کرے گی جس کی روشنی میں آئندہ ہفتے مزید فیصلے کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ ان کمیٹیوں کے قیام کا فیصلہ وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا۔
وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ انصاف کے نظام میں پائے جانے والے سقم کو دور کرنا اور عوام کو آسان، سستے اور فوری انصاف تک رسائی کو یقینی بنانا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منشور کا بنیادی جزو ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’انصاف کے موجودہ نظام پر عوام کا اعتماد بہت حد تک متزلزل ہوچکا ہے، انصاف کے نظام میں بہتری کے لیے عوام کی توقعات موجودہ حکومت سے وابستہ ہیں‘۔
مزید پڑھیں: کورونا عالمی مسئلہ ہے جس سے عالمی انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے، وزیر اعظم
وزیرِ اعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت کی اولین ترجیح معاشرے کے کمزور، بے بس اور لاچار طبقات کی آواز بننا اور ان کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔
قبل ازیں وزیر قانون نے وزیر اعظم کو اصلاحات سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ نظام میں اصلاحات کو نافذ کرنے کے بعد مقدمات کے تدارک کے لیے ایک میعاد طے کی گئی ہے۔
انہوں نے اجلاس کو خواتین قیدیوں کی حالات بہتر بنانے اور ان کی وراثت کے امور سے متعلق اصلاحات کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔
علاوہ ازیں دفتر وزیر اعظم کے مطابق دوسری کمیٹی معاشرے میں بڑے پیمانے پر پائے جانے والے صنفی تعصب کے مجموعی تناظر میں خواتین قیدیوں کی حالت زار پر نظر ڈالے گی، چاہے وہ سزا یافتہ ہوں یا ان کے مقدمات زیرالتوا ہوں۔
دفتر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ اس مسئلے کو جامع انداز میں حل کرنے کے لیے ادارہ جاتی انتظامات کو عملی شکل دینے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ 7 اراکین پر مشتمل کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق (بطور چیئرپرسن) کر رہی ہیں اور اس میں سیکریٹری وزارت انسانی حقوق (کمیٹی کے سکریٹری کے طور پر)، سیکریٹری وزارت داخلہ، پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کے سیکرٹری داخلہ جبکہ ان صوبوں اور علاقے کے انسپکٹر جنرل پولیس برائے جیل خانہ جات بھی شامل ہیں۔
کمیٹی کی چیئرپرسن کسی بھی شخص کو کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے بھی منتخب کرسکتی ہیں۔
کمیٹی کے ٹرم آف ریفرنس (ٹی او آر) ہیں کہ وہ جائزہ لے کہ کیا خواتین قیدیوں، خاص طور پر ان کے تحفظ، حقوق، صحت، سلامتی اور فلاح و بہبود کے حوالہ سے جیل کے قواعد و ضوابط، ضابطہ فوجداری 1898 اور بین الاقوامی سطح کے بہترین طریقوں پر عمل کیا جارہا۔
کمیٹی اس امر کو یقینی بنائے گی کہ خواتین کو ان کی جسمانی، نفسیاتی، جذباتی اور سماجی ضروریات کے مطابق مخصوص سہولیات میسر ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: چینی بحران: وزیر اعظم، ای سی سی چیئرمین کرپٹ اور نااہل ہیں، شاہد خاقان عباسی
اس کے علاوہ کمیٹی جیل اور دیگر متعلقہ قواعد کا بھی جائزہ لے گی اور خواتین کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے ضروری سفارشات پیش کرے گی۔
کمیٹی خواتین قیدیوں کے حوالے سے بالخصوص گورننس، قانونی معاونت، جیلوں کے انتظامی ڈھانچے اور طریقہ کار کا جائزہ لے گی اور بہتری کیلئے تجاویز دے گی۔
مزید برآں کمیٹی خواتین پر تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے انفرادی واقعات کا بھی جائزہ لے گی اور ادارہ جاتی سطح پر احتساب کے لیے اقدامات تجویز کرے گی۔
ساتھ ساتھ کمیٹی جیلوں میں خواتین کے ساتھ بچوں کی صورتحال کا بھی جائزہ لے گی اور ان بچوں کو تعلیم کی فراہمی اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے بھی تجاویز دے گی۔
علاوہ ازیں کمیٹی جیلوں کے گورننس کے نظام کی بہتری کے لیے بھی قابل عمل اور جامع تجاویز دے گی۔
کمیٹی خواتین قیدیوں کو رہائی کے بعد معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنانے اور ان کی فلاح و بہبود سے متعلق دیگر امور پر بھی کام کرے گی
واضح رہے کہ وزیر اعظم نے کمیٹی کو 4 ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔