پاکستان

ہفتہ، اتوار کاروبار بند رکھنے کا حکومتی فیصلہ کالعدم، ملک بھر میں شاپنگ سینٹرز کھولنے کا حکم

کیا کورونا نے بتایا ہے کہ وہ ہفتے اور اتوار کو نہیں آتا؟ دو دن مارکیٹیں بند کرنے کا کیا جواز ہے، چیف جسٹس گلزار احمد
|

سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے ہفتہ اور اتوار کے روز مارکیٹس اور کاروباری سرگرمیاں بند رکھنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور ساتھ ہی ملک بھر میں شاپنگ مالز کھولنے کی ہدایت کر دی۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال اور اس سلسلے میں حکومتی اقدامات پر لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عید پر رش بڑھ جاتا ہے، ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹیں بند نہ کرائی جائیں، آپ نئے کپڑے نہیں پہننا چاہتے لیکن دوسرے لینا چاہتے ہیں، بہت سے گھرانے صرف عید پر ہی نئے کپڑے پہنتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وفاق اور صوبے کورونا وائرس پر ایک ہفتے میں یکساں پالیسی بنائیں، سپریم کورٹ

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کورونا وائرس ہفتہ اور اتوار کو کہیں چلا نہیں جاتا، کیا کورونا نے بتایا ہے کہ وہ ہفتے اور اتوار کو نہیں آتا؟ یا ہفتہ اور اتوار کو سورج مغرب سے نکلتا ہے؟ ہفتہ اور اتوار کو مارکیٹیں بند کرنے کا کیا جواز ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ مارکیٹس اور کاروباری سرگرمیوں کو ہفتہ اور اتوار بند رکھنا آئین کی خلاف ورزی ہے، پنجاب اور اسلام آباد شاپنگ مالز کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو سندھ میں شاپنگ مالز بند رکھنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

عدالت نے کہا کہ سندھ شاپنگ مالز کھولنے کے لیے وفاقی حکومت سے رجوع کرے، اجازت کے بعد صوبے شاپنگ مالز کھولنے میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔

عدالت نے کہا کہ 2 دن کاروبار بند رکھنے کا حکم آئین کے آرٹیکل 4, 18 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔

تاجروں سے بدتمیزی کرنی ہے نہ رشوت لینی ہے، چیف جسٹس

عدالت کا کہنا تھا کہ پنجاب میں شاپنگ مال فوری طور پر آج ہی سے کھلیں گے جبکہ سندھ شاپنگ مال کھولنے کے لیے وزارت صحت سے منظوری لے گا، عدالت توقع کرتی ہے کہ وزارت صحت کوئی غیر ضروری رکاوٹ پیدا نہیں کرے گی اور کاروبار کھول دے گی۔

ساتھ ہی عدالت نے حکم دیا کہ تمام مارکیٹوں اور شاپنگ مالز میں ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، ایس او پیز پر عملدرآمد کے حوالے سے متعلقہ حکومتیں ذمہ دار ہوں گی۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ہفتہ اور اتوار کے روز بھی مالز اور مارکیٹیں بند نہیں ہوں گی، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو شاپنگ مالز کھولنے کی یقین دہانی کروائی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شاپنگ مالز کو بند رکھنے کی کیا منطق ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ حکومت قومی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کی تعمیل کرتی ہے، پنجاب اور اسلام آباد میں مالز کھولنا قومی رابطہ کمیٹی فیصلوں کے برعکس ہوگا۔

سماعت میں چیف جسٹس نے کمشنر کراچی افتخار شلوانی کو دکانیں اور مارکیٹیں سیل کرنے سے بھی روک دیا۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ تاجروں سے بدتمیزی کرنی ہے نہ رشوت لینی ہے، دکانیں سیل کرنے کے بجائے ایس او پیز پر عمل کروائیں اور جو دکانیں سیل کی گئی ہیں انہیں بھی کھول دیں۔

مالز میں 70 فیصد لوگ تفریخ کے لیے جاتے ہیں، کمشنر کراچی

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چھوٹے تاجر کورونا کے بجائے بھوک سے ہی نہ مر جائیں، وزارت قومی صحت کی رپورٹ اہمیت کی حامل ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جن چھوٹی مارکیٹوں کو کھولا گیا وہ کونسی ہیں؟ کیا زینب مارکیٹ اور راجہ بازار چھوٹی مارکیٹیں ہیں؟ کیا طارق روڈ اور صدر کا شمار بھی چھوٹی مارکیٹوں میں ہوتا ہے؟

اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ شاپنگ مالز کے علاوہ تمام مارکیٹیں کھلی ہیں جبکہ کمشنر کراچی نے کہا کہ مالز میں 70 فیصد لوگ تفریح کے لیے جاتے ہیں۔

سماعت کے آغاز میں نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے رپورٹ جمع کروائی گئی۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس ازخود نوٹس: کسی بھی عمل میں شفافیت نظر نہیں آرہی ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک مریض پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کا کیا جواز ہے؟ جس پر این ڈی ایم کے رکن نے جواب دیا کہ میڈیکل آلات، کٹس اور قرنطینہ مراکز پر پیسے خرچ ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کورونا اس لیے نہیں آیا کہ کوئی پاکستان کا پیسہ اٹھا کر لے جائے، ٹڈی دل کے لیے این ڈی ایم اے نے کیا کیا ہے؟ ٹڈی دل آئندہ سال ملک میں فصلیں نہیں ہونے دے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صنعتیں فعال ہوجائیں تو زرعی شعبے کی اتنی ضرورت نہیں رہے گی، صنعتیں ملک کی ریڑھ کی ہڈی تھیں، اربوں روپے ٹین کی چارپائیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔

500 ارب روپے کورونا مریضوں پر خرچ ہوں تو ہر مریض کروڑ پتی ہوجائے گا، چیف جسٹس

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ مجھے نہیں لگتا کورونا پر پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ کیا جا رہا ہے اور تقریباً 200 ارب روپے خرچ کردیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر آدمی پر 25 لاکھ روپے خرچ ہورہے ہیں، یہ صرف این ڈی ایم اے کا بجٹ ہے باقی صوبوں اور اداروں کو ملا کر 500 ارب بنے گا، اگر ہمارے ملک میں 5 سو 8 سو لوگ مررہے ہیں تو ہم کیا کررہے ہیں؟

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ یہ پیسہ ایسی جگہ چلا گیا ہے جہاں سے ضرورت مندوں کو نہیں مل سکتا، کورونا کے حوالے سے اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں، یہ کہاں جا رہے ہیں؟

نمائندہ این ڈی ایم نے کہا کہ ہمارے لیے 25 ارب مختص ہوئے ہیں، یہ تمام رقم ابھی خرچ نہیں ہوئی۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 25 ارب تو آپ کو ملے ہیں صوبوں کو الگ ملے ہیں، احساس پروگرام کی رقم الگ ہے، 500 ارب روپے کورونا مریضوں پر خرچ ہوں تو ہر مریض کروڑ پتی ہوجائے گا، یہ سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے؟

پاکستان میں کورونا اتنا سنگین نہیں جتنی رقم خرچ کی جا رہی ہے، عدالت

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اتنی رقم لگانے کے بعد بھی اگر 600 لوگ جاں بحق ہو گئے تو ہماری کوششوں کا کیا فائدہ؟ کیا 25 ارب کی رقم سے آپ کثیر منزلہ عمارتیں بنا رہے ہیں؟

نمائندہ این ڈی ایم نے کہا کہ یہ رقم ابھی پوری طرح ملی نہیں اور اس میں دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز پر کتنا پیسہ خرچ ہوا؟ جس پر این ڈی ایم اے کے رکن نے بتایا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ پر 5 کروڑ 90 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قرنطینہ مراکز پر اتنا پیسہ کیسے لگ گیا؟ کیا قرنطینہ مراکز کے لیے نئی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں؟

عدالت نے ہدایت کی کہ تمام وسائل صرف کورونا پر خرچ نہ کیے جائیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں وسائل خرچ کرنے سے متعلق اپنا مؤقف دیں، پاکستان میں کورونا اتنا سنگین نہیں جتنی رقم خرچ کی جا رہی ہے۔

عدالت نے کہا کہ کورونا وائرس سے زیادہ سالانہ اموات دیگر امراض سے ہوتی ہیں، این ڈی ایم اے اربوں روپے کورونا سے متعلق خریداری پر خرچ کر رہا ہے عدالت نے این ڈی ایم اے حکام کو نئی ہدایات لے کر آگاہ کرنے کا حکم بھی دیا۔

این ڈی ایم اے رپورٹ

نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے کورونا وائرس کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات اور فنڈز کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی۔

رپورٹ میں بتایا کہ این ڈی ایم اے کے لیے وزیراعظم نے 25 ارب 30 کروڑ روپے اور وزارت صحت کی جانب سے 50 ارب روپے مختص کیے گئے تاہم وزارت صحت کی رقم موصول نہیں ہوئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے این ڈی ایم اے کو 8 ارب روپے ملے جبکہ چینی حکومت کی جانب سے 64 کروڑ روپے کی گرانٹ دی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ این ڈی ایم اے امداد صرف سامان کی صورت میں وصول کرتی ہے نقد رقم کی صورت میں نہیں اور این ڈی ایم اے امداد کا آڈٹ کروانے کے لیے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے درخواست کر چکی ہے۔

رپورٹ میں سرحدوں پر قائم کردہ قرنطینہ مراکز کے حوالے سے تفصیلات بھی شامل کی گئیں جس کے مطابق تفتان، چمن اور طورخم پر 1200 پورٹ ایبل کنٹینر تیار کیے گئے ہیں جس میں تفتان پر 600، چمن 300 اور 300 طورخم کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ تفتان پر 1300 افراد، چمن میں 900 اور طورخم پر 1200 افراد کو رکھنے کی گنجائش ہے۔

علاوہ ازیں طورخم سرحد پر قرنطینہ مرکز کے لیے 300 کمرے تعمیر کیے گئے ہیں جبکہ 1200 اضافی کمرے تعمیر کرنے کے انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔

اس سلسلے میں چمن میں 300 کمروں میں سے 130 زیر تعمیر ہیں اور تفتان میں 600 میں سے 202 تکمیل کے قریب ہیں اور مقامی ملٹری اتھارٹی کے مطابق مزید کمروں کی ضرورت نہیں ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ لوکل ملٹری اتھارٹی نے ٹینٹ ویلیج کی صورت میں 1300 کمروں کی سہولت فراہم کی ہوئی ہے جبکہ پاکستان ریلویز نے بھی دو ٹرینیں بطور قرنطینہ مختص کر رکھی ہیں۔

عدالتی حکم نامہ

سپریم کورٹ نے کورونا وائرس صورتحال از خود نوٹس کی آج ہونے والی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا جس میں مارکیٹیں اور کاروباری سرگرمیاں ہفتہ، اتوار کو بند کرنے کا فیصلہ کالعدم کردیا۔

تحریری حکم میں کہا گیا کہ اگر کاروبار اور صنعتیں طویل عرصے تک بند رہیں تو ان کا دوبارہ بحال ہونا مشکوک ہوجائے گا۔

عدالت نے کہا کہ کاروبار اور صنعتیں بحال نہ ہونے سے لاکھووں ورکرز سڑکوں پر ہوں گے اور اتنی بڑی تباہی کو حکومت کے لیے ڈیل کرنا نا ممکن ہوجائے گا۔

تحریری حکم میں واضح طور پر نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے) کی پیش کردہ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔

عدالت نے تحریری حکم میں کہا کہ نہیں سمجھ آتی اتنا پیسہ کیوں خرچ کیا جارہا ہے؟

ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ این ڈی ایم اے کی رپورٹ پر اٹارنی جنرل اور متعلقہ حکام کا موقف سننا چاہتے ہیں اور مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

کورونا صورتحال از خود نوٹس

خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے 10 اپریل کو ملک میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کورونا وائرس سے متعلق ازخود نوٹس پر 13 اپریل کو پہلی سماعت کی تھی۔

واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور یہ تعداد 42 ہزار 2 سو 27 تک پہنچ گئی ہے جبکہ اب تک 899 اموات بھی ہوئی ہیں۔

ملک میں اس وائرس کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں تاہم اس کے باوجود دنیا بھر کی طرح یہاں بھی اس کا پھیلاؤ جاری ہے۔

26 فروری کو پاکستان میں پہلا کیس رپورٹ ہونے سے لے کر اب تک کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

میں ’ارطغرل غازی‘ کے خلاف نہیں، ریما کی وضاحت

پاکستان اسٹیل ملز کی ’جان بوجھ کر تباہی‘ کی تحقیقات کا مطالبہ

پیپلزپارٹی کا این ایف سی کا 'غیرقانونی' نوٹیفکیشن واپس لینے کا مطالبہ