عالمی ادارہ صحت کے ساتھ مل کر وائرس کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں، چین
چین نے کہا ہے کہ وہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کے اصل گڑھ تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو پر چین کو نشانہ بنانے کے لیے ایک کے بعد ایک جھوٹ بولنے کا الزام عائد کیا۔
چین کے شہر ووہان میں دسمبر کے آخر میں نمودار ہونے والے اس وائرس سے دنیا بھر میں دو لاکھ 55 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس میں سے 70 ہزار سے زائد امریکا میں ہلاک ہوئے ہیں۔
مزیدپڑھیں: کورونا وائرس: امریکا، چین میں لفظوں کی جنگ شدت اختیار کرگئی
مائیک پومپیو نے چین پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے وائرس کے نمونے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جو ویکسین بنانے میں مددگار ہیں اور شفافیت کا مطالبہ کیا۔
اکثر ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ وائرس جانوروں کی مارکیٹ میں پیدا ہوا اور وہیں سے انسانوں میں منتقل ہوا البتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مائیک پومپیو نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ یہ وائرس ووہان کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا لیکن انہوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے عالمی ادارہ صحت پر وبا کے خلاف سست روی سے ردعمل دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ابھی بھی چین میں تحقیقات کی ضرورت ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے جمعرات کو بیجنگ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وبا کے ابتدائی مرکز کی تلاش کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چین کا امریکی مصنوعات پر ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ مؤخر
انہوں نے کہا کہ ہم وبا کے ابتدائی مرکز سمیت عالمی ادارہ صحت پر اس معاملے پر تعاون کے لیے تیار ہیں اور انہوں نے فرانس، سویڈن اور امریکا سے موصول ہونے والے سگنلز کی جانب اشارہ کیا جو خود اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ یہ وائرس چین سے نمودار نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ سائنسدان اب تک اس معاملے پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں تو مائیک پومپیو جلد بازی میں یہ نتیجہ کیوں اخذ کر رہے ہیں کہ یہ وائرس ووہان لیب سے نمودار ہوا ہے؟ اس بات کا ثبوت کہاں ہے؟ ہمیں اس بات کا ثبوت دکھائیں، اگر وہ ہمیں اس کا ثبوت نہیں دکھاتے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ثبوت بنانے کے عمل میں مصروف ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ اس معاملے پر مائیک پومپیو کے انٹرویو دیکھیں تو خود ان کے بیانات میں تضاد ہے، ان بیانات میں تضاد اس لیے ہے کیونکہ وہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے دوسرا جھوٹ بولتے ہیں، یہ ایک کھلی حقیقت ہے۔
گزشتہ روز وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائرس کو امریکا پر اب تک ہونے والا بدترین حملہ قرار دیا تھا اور اسے نہ روکنے پر چین کو ذمے دار ٹھہرایا۔
انہوں نے اسے 1941 میں ہونے والے پرل ہاربر حملے اور 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر کیے گئے دہشت گرد حملے سے بھی بدتر قرار دیا۔
مزید پڑھیں: چین اور امریکا کے درمیان کورونا وائرس کے حوالے سے لفظی جنگ میں تیزی
یاد رہے کہ جاپانی فوج نے 7 دسمبر 1941 میں پرل ہاربر کے نام سے مشہور ہوائی میں قائم امریکی بحری اڈے پر اچانک حملہ کر کے 2300 امریکی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا جس کے بعد امریکا دوسری جنگ عظیم کا حصہ بن گیا تھا۔
دوسری جانب 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر طیاروں سے کیے گئے دہشت گرد حملے کے نتیجے میں ڈھائی ہزار سے زائد امریکی شہری مارے گئے تھے۔
ٹرمپ نے کہا کہ اسے دوبارہ نہیں ہونا چاہیے، اسے جڑ پر روکا جا سکتا تھا، اسے چین میں روکا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
انہوں نے ایک مرتبہ پھر عالمی ادارہ صحت پر چین کے حوالے سے جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے اور اس وائرس کے خلاف تاخیر سے ردعمل دینے کا الزام عائد کیا۔
چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چنینگ نے کہا کہ واحد دشمن یہ وائرس ہے کیونکہ یہ انسانیت کا مشترکہ دشمن ہے اور اس وائرس کا مقابلہ کرتے ہوئے چین امریکا کا دشمن نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہو گا۔
مزیدپڑھیں: چین کا سرکاری دفاتر میں امریکی ساختہ ٹیکنالوجی پر پابندی کا فیصلہ
اس موقع پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ چین کی مقامی حکومتوں نے امریکا کی 30 مختلف ریاستوں کے 55 شہروں کو مجموعی طور پر 96 لاکھ ماسک، 5 لاکھ ٹیسٹ کٹس، دستانوں کی 3 لاکھ سے زائد جوڑیاں اور ایک لاکھ 33 ہزار چشموں کی امداد دی ہیں۔
امریکا کے نیشنل نسٹیٹوٹ آف الرجی این انفیکشن ڈیزیز کے ڈائریکٹر اور ٹرمپ کی کورونا وائرس ٹاسک فورس کے سربراہ انتھونی فاسی نے کہا کہ سب سے بہترین دستیاب ثبوت یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ وائرس کسی لیب میں تیار نہیں کیا گیا بلکہ بلکہ قدرتی طور پیدا ہوا اور پھر جانداروں میں منتقل ہو گیا۔