دنیا

امریکا: کووڈ-19 پر تحقیق کرنے والے پروفیسر کا قتل

اسسٹنٹ پروفیسر بنگ لیو کو ٹاؤن ہاؤس میں سر، گردن اور دھڑ پر گولیاں لگیں، پولیس

امریکی ریاست پنسلوانیا میں کووڈ-19 پر مؤثر تحقیق کرنے والے یونیورسٹی آف پیٹسبرگ کے چینی نژاد پروفیسر کو قتل کردیا گیا۔

سی این این کی رپورٹ کے مطابق پیٹسبرگ یونیورسٹی کا کہنا تھا کہ پروفیسر کووڈ-19 پر نتیجہ خیز تحقیق کررہے تھے لیکن انہیں گولی مار دی گئی۔

پولیس کے مطابق اسسٹنٹ پروفیسر بنگ لیو ٹاؤن ہاؤس میں سر، گردن اور دھڑ پر گولی لگنے کے باعث زخمی حالت میں پائے گئے تھے۔

مزید پڑھیں:’امریکا نے وائرس ووہان کی لیبارٹری میں تیار ہونے کے دعوے کا کوئی ثبوت نہیں دیا‘

تفتیش کاروں کے مطابق ایک اور نامعلوم شخص کو ان کی کار میں مردہ پایا گیا ہے اور ان کا خیال ہے اسی شخص نے ہی کار میں آکر خودکشی کرنے سے پہلے لیو کو گولی مار کر ہلاک کیا ہے۔

پولیس کا ماننا ہے کہ دونوں افراد ایک دوسرے کو جانتے تھے لیکن اس بات کے بہت کم امکانات ہیں کہ لیو کو چینی نژاد ہونے پر قتل کیا گیا۔

یونیورسٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'بنگ لیو کی ناگہانی موت نے غمگین کردیا ہے جو ایک بہترین محقق اور یونیورسٹی کے ہونہار طالب علم تھے'۔

لیو کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا کہ 'یونیورسٹی، لیو کے اہل خانہ، دوستوں اور ساتھیوں سے اس مشکل وقت میں ہمدردی کا اظہار کرتی ہے'۔

مقتول کے یونیورسٹی میں شعبے کے ساتھیوں نے اپنے بیان میں کہا کہ 'بنگ لیو ایس اے آر ایس-سی او وی-2 انفیکشن اور اس کے اثرات کو سمجھنے سے متعلق بامعنی نتائج حاصل کیے تھے'۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ انتظامیہ کا چین سے صنعتی درآمدات پر مزید سختی کا منصوبہ

پیٹسبرگ یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسن کے اراکین کا کہنا تھا کہ مقتول غیرمعمولی محقق اور نگران تھے۔

اسکول آف میڈیسن کے اراکین نے عہد کیا کہ وہ بنگ لیو کی تحقیق کو مکمل کریں گے۔

خیال رہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر امریکا اور چین کے درمیان حال ہی میں نئی کشیدگی کا آغاز ہوگیا ہے جبکہ امریکا اسی بنیاد پر نئے ٹیرف عائد کرنے کا بھی منصوبہ بنارہا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے متعدد مرتبہ چین پر الزام عائد کیا ہے کہ کورونا وائرس چین کی غفلت کا باعث پھیلا ہے اور چین نے دیگر ممالک کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا جبکہ چین ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین پر وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے انتظامات کے حوالے سے بہت تنقید کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ووہان کی لیبارٹری سے شروع ہوا۔

مزید پڑھیں:لوگوں کا بلڈ گروپ کووڈ 19 کے خطرے پر اثرانداز ہوسکتا ہے، تحقیق

امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے بھی کہا تھا کہ ’بہت سے ثبوت‘ اس دعوے کی حمایت کرتے ہیں اور امریکی انٹیلی جنس اداروں نے بھی گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ اس بات کی تحقیق جاری رکھیں گے کہ وائرس کا پھیلاؤ متاثرہ جانوروں سے ہوا یا لیبارٹری میں ہوئے حادثے سے ہوا۔

دوسری جانب چین نے الزام عائد کیا تھا کہ شاید چین میں امریکی فوج وائرس لے کر آئی ہو جبکہ امریکا نے کہا تھا کہ عین ممکن ہے کہ چین نے وائرس کو جان بوجھ کر پھیلنے دیا ہو مگر ایسے الزامات کو ثابت نہیں کیا جا سکا اور یہ سب صرف بیانات اور میڈیا کی خبروں کی زینت تک محدود رہے۔

بعدازاں امریکی حکومت کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وائرس ووہان کی لیبارٹری میں تیار ہوا جس پر چینی شہر ووہان کے انسٹی ٹیوٹ آف ورولاجی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں کوئی صداقت نہیں کہ کورونا وائرس کو ان کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر برائے ہنگامی صورتحال مائیکل ریان نے امریکی دعووں کو قیاس آرائیوں سے تعیبر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وائرس کی ابتدا کے حوالے سے ہمیں امریکا کی جانب سے کوئی ڈیٹا یا مخصوص شواہد موصول نہیں ہوئے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق یہ قیاس آرائی ہی ہے۔

مائیکل ریان نے کہا تھا کہ ’کسی بھی ثبوت پر بات کرنے والے ادارے کی طرح ہم بھی وائرس کی ابتدا کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں‘۔

ڈبلیو ایچ او عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ڈیٹا اور شواہد موجود ہیں تو یہ فیصلہ امریکی حکومت کو کرنا ہے کہ انہیں فراہم کرنا ہے یا نہیں اور کب فراہم کرنا ہے لیکن عالمی ادارہ صحت کے لیے اس حوالے سے معلومات کی عدم موجودگی میں کچھ کرنا مشکل ہے۔

لندن میں پہلی بار لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی اجازت

زوم ویڈیو کالز کے جواب میں اسکائپ کا میٹ ناؤ فیچر

ایران پر پابندی میں توسیع کا 'منہ توڑ جواب' دیا جائے گا، حسن روحانی