پاکستان

حکومت 11 مئی سے قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے پر رضامند

اجلاس کے دوران وقفہ سوال و جواب نہیں ہوگا جبکہ توجہ دلاؤ نوٹسز اور تحریک التوا بھی نہیں جمع کرائی جائے گی، وزیر خارجہ

اسلام آباد: حکومت کے 11 مئی سے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے اعلان کے بعد ملک کی اہم سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنی درخواست واپس لینے پر رضامند ہوگئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے اراکین اور اسٹاف کی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے سخت صحت گائیڈ لائنز اور اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) کے تحت قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔

جس کے بعد مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی اپنی درخواست واپس لے لی، یہ 6 ہفتوں میں دوسری مرتبہ ہے کہ اپوزیشن جماعت نے اپنی درخواست واپس لی۔

اس سے قبل آئین کے آرٹیکل 54(3) کے تحت پارٹی نے اپوزیشن کے 98 اراکین اسمبلی کا دستخط شدہ سات نکاتی طلبی کا نوٹس جمع کرایا تھا جس کا مقصد ملک میں کورونا وائرس سے متعلق صورتحال پر بات کرنا تھا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ اجلاس قومی اسمبلی ہال میں منعقد کرنے کیلئے چیئرمین کا اسپیکر کو خط

آئین کے مطابق ایسی صورت میں اسپیکر 14 روز کے اندر اجلاس طلب کرنے کے پابند ہیں اور آج (6 مئی) کو یہ مدت ختم ہورہی ہے۔

خیال رہے کہ حکومت اور اپوزیشن اراکین اسمبلی گزشتہ کئی ہفتوں سے اجلاس منعقد کرنے کے لیے ایس او پیز پر بحث کر رہے تھے تاہم صورتحال اس وقت مزید خراب ہوئی جب اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر میں یکم مئی کو کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی اور پھر ‘کورونا وائرس کے خدشے کو کم کرنے، صفائی اور ڈس انفیکٹ کرنے کے لیے‘ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ اور پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کو 9 مئی تک کے مکمل بند کردیا گیا تھا۔

اسد قیصر اور ان کے اہلخانہ میں کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد انہوں نے خود کو خیبر پختونخوا کے علاقے صوابی میں اپنی رہائش گاہ پر قرنطینہ کرلیا تھا۔

علاوہ ازیں خصوصی اجلاس کے بعد وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس کم دورانیے کے لیے ایک روز چھوڑ کر ہوگا اور اس میں ملک بھر میں پھیلے کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال اور حکومت کی جانب سے وبا کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات پر بات ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بحث کا مقصد کورونا وائرس کی صورتحال پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے امید ظاہر کی کہ حکومت اور اپوزیشن بجٹ اجلاس طلب کرنے کے طریقہ کار پر بھی رضامند ہوجائے گے جو ممکنہ طور پر عید کے بعد ہوگا۔

کورم، سوال و جواب کا وقت

شاہ محمود قریشی نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اجلاس کے دوران کوئی سوال و جواب کا وقت نہیں ہوگا اور اسی طرح اجلاس کے دوران توجہ دلاؤ نوٹسز اور تحریک التوا کے اقدامات بھی نہیں اٹھائے جائیں گے۔

جہاں تک اراکین کی حاضری کا تعلق ہے تو وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ معاملہ جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز پر چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ فیصلہ کریں گے کہ کونسا رکن کس دن اجلاس میں شرکت کرے گا۔

انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اپوزیشن سے اتفاق ہوا ہے کہ اجلاس کے دوران کورم کی نشاندہی نہیں کی جائے گی۔

واضح رہے کہ آئین کے تحت قومی اسمبلی کی کارروائی کے لیے 342 رکنی ایوان کے ایک چوتھائی اراکین (86 اراکین) کی موجودگی لازمی ہے۔

مزید تفصیل بتاتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ مہمانوں کی گیلری کو اجلاس کے دوران بند رکھا جائے گا اور صرف صحافیوں کو پریس گیلری میں بیٹھنے کی اجازت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن کے انعقاد کو خطرہ لاحق

انہوں نے کہا کہ پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن، پارلیمانی رپورٹرز کی نمائندہ تنظیم ہونے کے ناطے، اسمبلی کارروائی کی کوریج کے لیے صحافیوں کی تعداد کا فیصلہ کرے گی اور وہ اس مقصد کے لیے اپنی ایس او پیز تیار کرے گی۔

دوسری جانب اجلاس میں شریک اپوزیشن کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ آئندہ اجلاس صرف ایک ہفتہ جاری رہنے کی امید ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے اس شرط پر کورم کی نشاندہی نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے کہ حکومت ان اجلاس میں کوئی اہم قانون سازی نہیں کرے گی جس میں ووٹنگ کی ضرورت ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے حکومت کو واضح طور پر کہا ہے کہ اگر حکومت کو کوئی قانون سازی کرنی ہے تو اپوزیشن اراکین کو پہلے سے نوٹس دے تاکہ انہیں اتنا وقت مل سکے کہ اپوزیشن اپنے اراکین کی موجودگی کو یقینی بناسکے۔

دریں اثنا قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے بھی کمیٹی کے اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کردیا۔

جس میں کہا گیا کہ کمیٹی نے اجلاس کے دوران ممبران کی آمدورفت کے لیے کراچی اور کوئٹہ سے اسلام آباد کے لیے خصوصی پروازیں چلانے کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ بھی تجویز کی گئی ہے کہ اجلاس سے قبل پارلیمنٹیرینز اور سکریٹریٹ کے عملے کی کورونا ٹیسٹنگ کی جائے۔

اس کے مطابق کمیٹی کے اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے وزیر خارجہ کی جانب سے اسمبلی اجلاس آئندہ ہفتے طلب کرنے کی یقین دہانی پر اپنی پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے جمع کرائی گئی درخواست واپس لینے کا اعلان کیا۔

خیال رہے کہ ورچوول سیشن کے انعقاد کی اجازت کے لیے اسپیکر اسمبلی نے قواعد و ضوابط یا آئین میں ترامیم تجویز کرنے کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی تاہم مسلم لیگ (ن) نے اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے اسے حکمران جماعت کی پارلیمنٹ کو غیر فعال بنانے کی سازش قرار دیا تھا۔

گزشتہ ہفتے کمیٹی نے کورونا وائرس وبائی امراض کے تناظر میں پارلیمنٹ کے ورچوول سیشن کے انعقاد کے آپشن کو بالآخر مسترد کردیا تھا اور اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ حکومت کو معمول کے مطابق اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا چاہیے۔

اجلاس میں شریک پارلیمانی رہنماؤں کی رائے تھی کہ پارلیمنٹ عوام کی رائے پر مشتمل ہوتی ہے لہٰذا اس کو ایگزیکٹو کی پارلیمانی نگرانی کے کردار کو جاری رکھنے کے لیے فعال بنایا جانا چاہیے۔

یو اے ای سے وطن واپس آنے والوں میں کورونا کیسز، حکومت کیلئے باعثِ تشویش

پاکستان کورونا وائرس کے کیسز کے لحاظ سے دنیا کا 24واں بڑا ملک بن گیا

افغان امن عمل آخر آگے بڑھ کیوں نہیں رہا؟