پاکستان

کورونا سے اتنے لوگ نہیں مرے جتنے ٹریفک حادثات میں مرجاتے ہیں، اسد عمر

9 مئی کے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے فیصلے ہمارے صحت کے نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جائیں گے، وفاقی وزیر منصوبندی

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے اتنے لوگ نہیں مرے جتنے ٹریفک حادثات میں مرجاتے ہیں تاہم کبھی ٹریفک کو روکا نہیں جاتا۔

اسلام آباد میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ تمام صوبوں کے اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی برائے کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے حوالے سے مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق فیصلے کرے گی۔

مزید پڑھیں: برطانیہ میں پاکستانی برادری کو کورونا سے زیادہ خطرہ

ان کا کہنا تھا کہ فیصلے اس طرح سے کیے جائیں گے کہ وہ ہمارے صحت کے نظام کو مفلوج نہ کریں، پابندیاں بتدریج ہٹائی جائیں گی تاکہ عوام کی زندگی بحال ہوسکے۔

'2 ماہ میں مزید 900 وینٹی لیٹرز آجائیں گے‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہم اپنے صحت کے نظام کی صلاحیت کو بہت آگے لے گئے ہیں، ہمارے پاس اس وقت ایک ہزار 400 وینٹیلیٹرز موجود ہیں اور آئندہ دو ماہ میں مزید 900 کا اس میں اضافہ ہوجائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت کورونا وائرس کے صرف 35 مریض وینٹیلیٹرز پر موجود ہیں۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ ملک میں اب طبی آلات بنانے کی صلاحیت موجود ہے اور جلد ہم وینٹی لیٹرز کی مقامی پیداوار کا آغاز کردیں گے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت مکمل طور پر فعال 55 لیبارٹریز موجود ہیں جن میں تقریباً یومیہ 14 ہزار کورونا ٹیسٹ کرانے کی صلاحیت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان بھر میں کورونا سے 38 صحافی متاثر، 2 جاں بحق'

وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ ٹیسٹنگ، ٹریکنگ اور قرنطینہ کا نظام پوری طرح سے فعال بنایا گیا ہے۔

پاکستان کی صورتحال دیگر ممالک سے بہتر

اسد عمر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کی صورتحال کا اگر یورپ اور امریکا اور اسپین سے موازنہ کریں تو ان کے مقابلے میں اتنی مہلک نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ غیر ملکی میڈیا دیکھیں یا آرٹیکلز پڑھیں تو آپ اصطلاح ’فلیٹن دا کرو‘ سنیں گے، وہ بھی اس کے خاتمے پر توجہ دینے کے بجائے اسے محدود کرنے پر توجہ دے رہے ہیں کیونکہ اس کے خاتمے کے لیے انتہائی سخت اقدامات کرنے ہوں گے‘۔

انہوں نے زور دیا کہ ہمیں احتیاطی تدابیر اپنانی ہوں گی تاکہ اس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے،

’4 میں سے ایک پاکستانی کے گھر میں خوراک کی کمی‘

لاک ڈاؤن کے اثرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لاک ڈاؤن کے معاشی اثرات دیگر مغربی ممالک سے کہیں زیادہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن اور پابندیوں کے باعث معاشی طور پر ریونیو میں 119 ارب روپے کا نقصان ہوا جبکہ روزگار میں بھی بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے، ایک کروڑ 80 لاکھ افراد بے روزگار ہوسکتے ہیں 10 لاکھ چھوٹے ادارے ہمیشہ کے لیے بند ہوسکتے ہیں اور ہر 4 میں سے ایک پاکستانی کے گھر میں خوراک کی کمی ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ ملک میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020 کو کراچی میں سامنے آیا اور 25 مارچ تک کیسز کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ چکی تھی۔

تاہم اس کے بعد مذکورہ وائرس نے پاکستان میں اپنے پنجے گاڑنا شروع کردیے اور اب تک ساڑھے 18 ہزار سے زائد وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 457 تک پہنچ چکی ہے۔

'پاکستان بھر میں کورونا سے 38 صحافی متاثر، 2 جاں بحق'

برطانیہ میں پاکستانی برادری کو کورونا سے زیادہ خطرہ

پی آئی اے میں لازمی خدمات کے قانون کا نفاذ غیرآئینی قرار