طالبان نے رمضان میں سیز فائر کا مطالبہ مسترد کردیا
طالبان نے افغان حکومت کے رمضان میں سیز فائر کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مطالبہ معقول نہیں ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے عسکریت پسندوں سے اپیل کی تھی کہ وہ رمضان کے لیے اپنے ہتھیار ڈال دیں کیونکہ ملک کورونا کی وبا کا مقابلہ کر رہا ہے۔
تاہم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹوئٹ میں امن عمل سے متعلق اختلافات اور قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر کو لڑائی جاری رکھنے کی وجہ بتایا اور حکومت کی پیشکش پر شدید تنقید کی۔
انہوں نے حکومت پر کورونا کے باعث قیدیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ 'سیز فائر کا مطالبہ معقول نہیں ہے۔'
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ اور امیر قطر کا افغان طالبان کے پرتشدد حملوں پر تبادلہ خیال
واضح رہے کہ رواں سال 28 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدہ ہوا تھا، جس کے بعد افغان حکومت اور طالبان کو ایک دوسرے کے قیدی رہا کرنے تھے اور ملک میں پائیدار امن کے لیے بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا۔
افغان حکومت کی جانب سے طالبان سے سیز فائر کا مطالبہ حالیہ ہفتوں میں حملوں میں درجنوں افغان سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا ہے۔
طالبان کی جانب سے حالیہ حملے افغانستان کے دیہی علاقوں اور چھوٹے قصبوں میں کیے گئے۔
امریکا اور طالبان کے معاہدے کے تحت عسکریت پسندوں نے شہروں میں حملے نہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
معاہدے کے تحت امریکا اور دیگر غی ملکی افواج کا جولائی 2021 تک افغانستان سے انخلا مکمل ہوگا، تاہم اس کے لیے طالبان کو سیکیورٹی ضمانتیں برقرار رکھنی ہوں گی اور افغان حکومت سے مذاکرات کرنے ہوں گے۔
مزید پڑھیں: طالبان سے مذاکرات کیلئے افغان حکومتی وفد میں 5 خواتین بھی شامل
اشرف غنی اس سے قبل بھی کئی بار طالبان سے سیز فائر کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
تاہم طالبان افغان حکومت کو غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں 'کٹھ پتلی' قرار دیتے ہیں اور حکومت سے مذاکرات سے انکار کرتے آئے ہیں۔