کوئٹہ: بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اعلان کیا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں تمام عسکریت پسند گروہوں سے مذاکرات کئے جائیں گے۔
بلوچستان اسمبلی میں قانون و امن کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سرگرم تمام عسکریت پسند گروہوں سے بات کرنے کیلئے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
'معمول کے مذاکرات عید کے بعد شروع کردیئے جائیں گے،' انہوں نے ایوان میں کہا۔
ڈاکٹر بلوچ نے کہا کہ طاقت کے استعمال سے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے جبکہ صرف سیاسی طریقوں سے ہی بلوچستان کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے معاملے پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں متفق ہیں اور عسکریت پسندوں سے مذاکرت پر تمام فریقین کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
ڈاکٹر بلوچ نے کہا کہ حکومت نے نواب اکبر خان بگٹی کے تمام اہلِ خانہ کو دوبارہ آباد کیا۔
' خواہ بلوچ گروپ ہو یا فرقہ واریت میں ملوث گروہ ہوں، ہم ان سے بات کریں گے،' بلوچ نے کہا۔
بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ گزشتہ عشرے سے تشدد اور بد امنی کی لپیٹ میں ہے۔ فرقہ وارانہ کارروائیاں اور خود کش حملوں میں ہزارہ برادری کے ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ بلوچ مزاحمت کاروں کی کارروائیوں میں بھی ہزاروں لوگ مارے جاچکےہیں۔
بلوچستان اسمبلی میں موجود قانون سازوں نے بلوچستان میں امن و امان کی مخدوش صورتحال پر گہری تشیویش کا اظہار کیا۔ حکومتی اور اپوزیشن اراکین دونوں نے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صوبے میں عوام کی جان و مال کے تحفظ میں ناکامی پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے کوسٹ گارڈ اہلکاروں کے ساتھ ظہور بلیدی کے بھائی کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اراکین کی شکایت پر صوبے کی شاہراہوں پر موجود غیر ضروری چیک پوسٹس ختم کردی جائیں گی۔
' یہ چیک پوسٹیں دہشتگردی ختم کرنے کی بجائے پریشانی کی وجہ بنی ہوئی ہیں،' انہوں نے کہا۔
انہوں نے حکومتی اور اپوزیشن اراکین سے کہا کہ ہم سنگین وقت سے گزررہے ہیں۔
صوبے میں لوڈشیڈنگ پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر بلوچ نے کہا کہ حکومت لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں پُر عزم ہے۔
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر رحیم زیارت وال نے کہا کہ صوبہ بلوچستان میں متوازی حکومت برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے صوبے میں بجلی کے ٹاور تباہ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اپوزیشن لیڈر مولانا واسع نے کہا ہے کہ حکومت صوبے میں دیرپا امن کیلئے کام کرے۔
ایک حکومتی رکن ، نصراللہ زرئی نے پولیس پر سنگین الزامات عائد کئے۔
' پولیس نے بریچ کالونی اور بلیلی کے علاقوں میں گھروں میں داخل ہوکر زیورات اور نقد رقم لوٹی ہے،' انہوں نے دعویٰ کیا۔ زرئی نے کہا کہ معصوم لوگوں کو ایک گھنٹے سے زائد عرصے تک ہراساں کیا گیا جبکہ ان کے خلاف دہشتگردی سے متعلق کوئی بھی الزام ثابت نہ ہوسکا۔
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ایک اور رکن عبیداللہ جان بابت نے کہا کہ کوئٹہ کے قندہاری بازار میں تین افراد کو دن دہاڑے قتل کردیا گیا۔
' اغواکارکوئٹہ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں کھلے عام گھوم رہے ہیں،' انہوں نے کہا۔
بابت نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار خاموش رہتے ہوئے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔
حکومتی جماعت کے رہنما خالد لانگو نے کہا کہ حکومت ایجنسی کی پشت پناہی پر بااثر لوگوں نے قلات کے لوگوں کو یرغمال بنارکھا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ قائدِاعظم ( پی ایم ایل کیو) کی ڈاکٹر رقیہ ہاشمی نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کوئٹہ میں ہزارہ ٹاؤن کے علاقے کی حفاظت میں ناکام ہوچکے ہیں۔
' فرنٹیئر کور کا کیا کردار ہے؟، ' انہوں نے سوال کیا۔
آخر کسطرح سخت سیکیورٹی کے باوجود خودکش حملہ آور ہزارہ ٹاؤن تک پہنچا۔