وفاقی وزیر نے کے پی ٹی میں اختیارات کا غلط استعمال کیا، عدالت
اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) نے ریمارکس دے کہ وفاقی وزیر بحری امور علی حیدر زیدی نے کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے لیے آڈٹ فرم کے تقرر میں اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔
علاوہ ازیں عدالت عالیہ نے وفاقی حکومت کے وکیل کو باور کرایا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے بیشتر ریفرنسز اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام پر مبنی ہیں۔
مزید پڑھیں: 'کراچی پورٹ ٹرسٹ میں سندھ کے شہری علاقوں کے ملازمین مختص کوٹے سے زیادہ'
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریئر ایڈمرل (ر) جمیل اختر کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی جنہیں بطور کے پی ٹی چیئرمین کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔
تاہم درخواست گزار نے اپنے خلاف اٹھائے گئے اقدام کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چینلج کیا تھا۔
اس معاملے پر سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے عدالت کے روبرو بتایا کہ جمیل اختر کے تقرر کے نوٹیفکیشن کے مطابق انہیں 2017 میں کے پی ٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور ان کی مدت پوری ہوچکی ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی توجہ سمری، منظوری اور وفاقی کابینہ کے ایک اور نوٹیفکیشن کی طرف مبذول کروائی جس کے مطابق یہ تقرر 3 سال کے لیے کیا گیا تھا۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ علی زیدی کے پی ٹی کے معاملات میں کیوں مداخلت کررہے ہیں اور وزات بحری امور کے سیکریٹری نے کے پی ٹی کے کھاتوں کا آڈٹ کروانے کے لیے نجی آڈٹ فرم کو کیوں مقرر کیا۔
یہ بھی پڑھیں: نیب نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے سابق چیئرمین جاوید حنیف کو گرفتار کرلیا
انہوں نے یہ بھی استفسار کیا قانون کے کس اختیار کے تحت ’ نجی کمپنی سے آڈٹ اور فیس کو وزارت کے ذریعے دیا جاسکتا ہے‘۔
اس موقع پر عدالت نے طارق محمود کھوکھر کو ہدایت کی کہ عدالت کو مطمئن کریں کہ نجی آڈیٹرز کا تقرر کیسے کیا جاسکتا ہے جب آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ذریعے فرانزک آڈٹ بھی کرایا جاسکتا تھا۔
واضح رہے کہ ریئر ایڈمرل (ر) جمیل اختر کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 3 سال کے لیے 23 نومبر 2017 کو کے پی ٹی کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔
بعدازاں وفاقی حکومت نے مختلف وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے 25 مارچ کو جاری کردہ ایک نوٹی فکیشن کے تحت انہیں کے پی ٹی چیئرمین کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ایک اور نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ ’وفاقی حکومت بندرگاہوں اور جہاز رانی کے ڈائریکٹر جنرل شکیل منگنیجو (بی ایس 21) کو چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے عہدے کا اضافی چارج 3 ماہ کی مدت کے لیے تفویض کردیا گیا۔
مزیدپڑھیں: کراچی پورٹ ٹرسٹ پر کارگو جہاز میں لگنے والی آگ پر قابو پالیا
تاہم وزارت سمندری امور کی طرف سے جاری کردہ ایک اور نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ریئر ایڈمرل (ر) جمیل اختر کو کے پی ٹی کے چیئرمین کے عہدے سے فوری طور پر ’کے پی ٹی میں بے ضابطگیوں‘ کی وجہ سے ہٹا دیا گیا۔
ادھر دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت کو مطمئن نہیں کرسکے کہ بے ضابطگیوں کے الزامات کو آڈٹ کی بنیاد پر اٹھایا جاسکتا ہے جبکہ آڈٹ اب تک مکمل نہیں ہوا‘۔
اس کے بعد عدالت نے سیکریٹری اور وفاقی وزیر بحری امور علی حیدر زیدی سے تفصیلی جواب طلب کرلیا، عدالت نے مذکورہ افراد سے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے معاملات میں مداخلت کا جواز طلب کرلیا۔
آئی ایچ سی نے ریمارکس دیے کہ جمیل اختر کی برطرفی کا معاملہ پیش کرتے وقت وفاقی کابینہ کو مناسب طریقے سے بریف نہیں کیا گیا۔
بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت 16 اپریل تک ملتوی کردی۔