پاکستان

خطرہ ہے کہ مہینے کے آخر میں ہسپتالوں میں جگہ کم نہ پڑ جائے، وزیر اعظم

یہ وبا بہت خطرناک ہے اور لوگ یہ سوچ کر احتیاط نہیں کررہے کہ پاکستانیوں کو فرق نہیں پڑے گا، وزیراعظم عمران خان

وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح بیماری پھیل رہی ہے اور ہمیں خطرہ ہے کہ اس مہینے کے آخر میں کہیں ہسپتالوں میں جگہ کم نہ پڑ جائے۔

اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں وزیر اعظم نے کہا کہ ابھی تک صرف 40 لوگ مرے ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ہمارے پاکستانیوں کی قوت مدافعت زیادہ ہے یا شاید ہمیں یہ بیماری اثر نہیں کرے گی۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: سندھ میں متاثرین 1000 سے متجاوز، ملک میں اموات 60 ہوگئیں

انہوں نے کہا کہ میں سب سے درخواست کرتا ہوں کہ خدا کا واسطہ اس غلط فہمی میں نہ پڑیں کیونکہ یہ وبا بہت خطرناک ہے اور ہمارے لوگ یہ سوچ کر احتیاط نہیں کررہے کہ پاکستانیوں کو فرق نہیں پڑے گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں جس طرح یہ وبا بڑھتی جا رہی ہے تو ہمیں خوف ہے کہ مہینے کے اختتام تک جن چار یا 5 فیصد لوگوں کو ہسپتال جانا پڑے گا ان کی تعداد اتنی ہو جائے گی کہ ہمارے ہسپتالوں میں آئی سی یو یا شدید بیمار مریضوں کیلئے جگہ نہیں ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ صورت میں ہم شدید بیمار لوگوں کا علاج کرنے سے قاصر ہوں گے اور ہمارے ہسپتالوں میں اتنے وینٹی لیٹر نہیں ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر 'عالمی ادارہ صحت کے چین سے جانبدار' ہونے پر برہم

عمران خان نے کہا کہ 3 ہفتے قبل ہم نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد ہم نے اسکول، یونیورسٹیز کے بعد فیکٹریاں دکانیں وغیرہ بند کردی تھیں لیکن یورپ، امریکا اور چین میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے ہمارا لاک ڈاؤن مختلف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کا ایک بڑا یعنی تقریباً پانچ کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں تو ہمیں لاک ڈاؤن کا یورپ اور چین کی طرح نہیں سوچنا چاہیے کیونکہ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اگر ہم ان کی طرح لاک ڈاؤن کریں گے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: امریکا میں ایک ہی دن میں ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ ریکارڈ

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ جو روزانہ دیہاڑی کمانے والے ہیں، رکشہ چلانے والے، چھابڑی والے اور دکاندار وغیرہ ہیں ان پر لاک ڈاؤن کا سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے کیونکہ وہ سارا دن دیہاڑی کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے ہم نے کوشش کی کہ کسی طرح سے توازن قائم ہو جائے، لاک ڈاؤن بھی ہو تاکہ بیماری نہ پھیلے اور اس کمزور طبقے پر بھی بوجھ نہ پڑ جائے اور یہی وجہ ہے تمام صوبوں اور وفاق کا ردعمل مختلف تھا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ امریکا جیسے ملک میں بھی مختلف ریاستوں میں مختلف رویہ ہے، کئی نے پورا لاک ڈاؤن کردیا ہے، کئی نے جزوی لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے، یورپ میں بھی سویڈن نے مختلف اقدامات کیے ہیں جبکہ جرمنی، اسپین اور اٹلی نے مختلف اقدامات کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے زراعت کے شعبے میں لوگوں کو کام کرنے دینا ہے کیونکہ ہمیں یہ بھی دھیان رکھنا ہے کہ ہمارے 22 کروڑ لوگ ہیں، جنہیں ہمیں کھانا پینا بھی مہیا کرنا ہے، خصوصاً اب گندم کی کٹائی شروع ہو چکی ہے تو ہم نے دیہاتوں میں کہا ہے کہ کوئی لاک ڈاؤن نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوئٹر بانی کا دولت کا 28 فیصد کورونا سے بچاؤ کے اقدامات پر خرچ کرنے کا اعلان

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے اصل لاک ڈاؤن شہروں میں کیا ہے، اب شہروں میں بھی سب کو خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں کہ لوگوں کے حالات برے ہیں، مزدوروں اور دیہاڑی کمانے والوں کے برے حالات ہیں تو اس کی وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا کہ شعبہ تعمیرات کو کھول دیا جائے تاکہ لوگوں کو نوکریاں ملیں۔

عمران خان نے کہا کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا چیلنج ہے کہ ہم اپنے سب سے غریب طبقے کا کیسے خیال رکھیں تو اسی سلسلے میں ہم کل سے احساس پروگرام شروع کرنے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ احساس پروگرام میں ساڑھے 3 کروڑ لوگوں نے درخواست دی ہے کہ وہ انتہائی غریب ہیں اور ان کی مدد کی جائے اور اس پروگرام میں کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: 'کورونا وائرس انسانی المیہ ہے اسے کسی مذہب و مسلک سے جوڑا نہیں جاسکتا'

انہوں نے مزید کہا کہ اس نظام میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا اور یہ نادرا کی جانب سے فراہم کیے گئے ڈیٹا کی بنیاد ہر خودکار نظام کے تحت میرٹ پر چل رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کے تحت ہر خاندان میں ایک فرد کو 12ہزار روپے دیے جائیں گے اور پورے پاکستان میں 17ہزار جگہیں ہیں جہاں سے یہ پیسہ تقسیم کی جائے گا جس کے تحت اگلے دو سے ڈھائی ہفتے میں ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کو یہ پیسہ دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مشکلات ضرور آئیں گی کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں اتنا بڑا پروگرام نہیں دیا گیا اور اس میں جو بھی مشکلات آئیں گی تو ہماری ٹیمیں بیٹھی ہوئی ہیں جو اس کا جائزہ لے گی اور جہاں بھی ہمیں اس میں بہتری یا تبدیلی کی ضروری محسوس ہوئی تو ضرور کریں گے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جو ہم نے ٹائیگر فورس شروع کی ہے انہیں ہم ذمہ داری بنائیں گے کہ وہ اضلاع اور اپنے علاقوں میں جا کر دیکھیں کہ کس کو ضرورت ہے اور ان لوگوں کو دیکھیں جو ایس ایم نہیں کر سکے اور پھر اسی سسٹم میں ان کا نام شامل کردیا جائے گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اگلے ڈھائی ہفتے میں 144ارب روپے نیچلے طبقے تک تقسیم کردیں گے اور اگر اس کے بعد بھی لوگ بچے تو اس کے لیے مخیر حضرات سے ریلیئف فنڈ کی درخواست کی ہے، اس فنڈ میں سے ان لوگوں میں رقم تقسیم کی جائے گی۔

عمران خان نے کہا کہ اس ٹائیگر فورس کا مقصد یہ ہے کہ ہم ہر ڈسٹرکٹ، یونین کونسل میں نیچے گاؤں کی سطح پر لوگوں کے حالات دیکھیں اور کس طبقے کو پیسے کی ضرورت ہے وہ ہمیں اس بارے میں آگاہ کریں کیونکہ لاک ڈاؤن صرف اسی وقت کامیاب ہو گا جب لوگوں کو گھروں میں کھانے پینے کی چیزیں ملیں گی۔

ساڑھے 7 لاکھ افراد ٹائیگر فورس کیلئے رجسٹریشن کرا چکے ہیں، عثمان ڈار

وزیر اعظم یوتھ پروگرام کے سربراہ عثمان ڈار نے کہا کہ اب تک پورے پاکستان سے ساڑھے 7 لاکھ نوجوان خود کو ٹائیگر فورس کے لیے رجسٹر کرا چکے ہیں جس میں سب سے بڑی تعداد پنجاب سے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک پنجاب سے تقریباً پانچ لاکھ نوجوان خود کو رجسٹرا کرا چکے ہیں، تقریباً ایک لاکھ سندھ، 90 ہزار خیبرپختونخوا، 10 ہزار بلوچستان، 8 ہزار آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سے نوجوانوں نے خود کو رجسٹر کرایا ہے۔

انہوں نے بتایا ان ساڑھے 7 لاکھ میں سے سوا 7 لاکھ مرد حضرات ہیں جبکہ 25 ہزار خواتین نے بھی خود کو رجسٹر کرایا ہے۔

عثمان ڈار کا کہنا تھا کہ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہمیں اس میں 10 ہزار ہیلتھ ورکرز ملے ہیں جس میں سے دو سے ڈھائی ہزار ایم بی بی ایس ڈاکٹرز ہیں اور 10 تاریخ کو رجسٹریشن بند ہونے کے ساتھ ہی ہم ان کو صوبوں میں وزارت صحت کے ساتھ منسلک کردیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے تین سطح پر اس کو تقسیم کیا جس میں سے ایک میں ضلعی سطح پر منتخب اراکین قومی اسمبلی ہوں گے، ایک تحصیل کی سطح پر ہے جس میں منتخب اراکین صوبائی اسمبلی ہوں گے جبکہ ایک یونین کونسل کی سطح پر چلائی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ متعدد سیاسی جماعتیں یہ کہہ کر اس ٹائیگر فورس کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ تحریک انصاف والے اس میں اپنے لوگ شامل کر لیں گے یا اپنے لوگوں میں سامان تقسیم کریں لیکن ایسا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی بھی اپنا بندہ شامل نہیں کر سکتا حتیٰ کہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر صاحبہ بھی اس میں کسی کو شامل نہیں کر سکتیں کیونکہ اس میں غربت کی جانچ کا ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اور جو اس طریقہ کار پر پورا اترے گا، اسے ہی حق دیا جائے گا۔

احساس پروگرام خودکار ہے، کرپشن کا راستہ بند کردیا، ثانیہ نشتر

وزیر اعظم کی نمائندہ خصوصی برائے سماجی تحفظ ثانیہ نشتر نے کہا کہ 144 ارب روپے کا یہ احساس پروگرام ہے جس کے تحت ایک کروڑ 20 لاکھ افراد کو فی گھرانہ 12 ہزار روپے ملیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے ہدایت کی تھی کہ اس پروگرام کو ایسے خودکار نظام کے تحت بنایا جائے کہ جس کے ذریعے کسی انسانی مداخلت کا راستہ کھلا نہ رہ جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ رقم کی ترسیل بائیو میٹرک تصدیق کے بعد یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی گئی تھی تاکہ انگوٹھے کی شناخت بینک اور نادرا دونوں سے ہو کیونکہ کارڈ سسٹم سے لوگ دوسروں کے کارڈ سے پیسے نکال سکتے تھے جس سے کرپشن کا امکان موجود ہے۔

ثانیہ نشتر نے کہا کہ حقداروں کے انتخاب کا طریقہ کار اصولوں پر مبنی، ڈیجیٹل اور مداخلت سے مبرا ہے اور رقم کی ترسیل بھی بائیو میٹرک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام شفافیت پر مبنی ہے اور وزیر اعظم کی خصوصی ہدایات تھیں کہ اس پروگرام کو بطور قومی سلامتی پروگرام چلایا جائے گا کیونکہ ہمارے کمزور طبقے کو پورے ملک میں مشکلات ہیں اور اب وفاق کی تمام اکائیاں اس احساس ایمرجنسی پروگرام کا حصہ ہیں۔

انہوں نے حقداروں کی نشاندہی کے طریقہ کار کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ایک ایس ایم ایس 8171 سے اس کام کی شروعات ہوتی ہیں اور ملک کے کسی بھی کونے سے اپنا 13 ہندسوں کا شناختی کارڈ نمبر بھیج دے تو وہ سسٹم میں چلا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہندسہ 15 مرحلوں سے گزرتا ہے اور ہر مرحلے پر میسجز آتے ہیں مطلب اگر نمبر غلط ہو گا تو میسج آئے گا، اگر حقدار نہیں یا سرکاری ملازم ہیں تو میسج آئے گا جس کے بعد وہ تین طرح کے ڈیٹا بیس سے گزرتے ہیں جبکہ ایک خاندان میں ایک ہی فرد کو نوٹیفکیشن آتا ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی واپسی کے خواہشمند ہیں، اسد عمر

وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ بہت بڑی تعداد میں پاکستانی باہر رہتے ہیں اور ان میں سے کئی کی خواہش ہے کہ وہ واپس ملک آئیں۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے کئی لوگ ایسے ہیں جو قلیل مدت کے ویزا پروگرام پر گئے تھے یا پھر جن کی کورونا وائرس کے سب پیدا ہونے والے بحران کی وجہ سے نوکری چلی گئی ہے لہٰذا وہ گھر واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ ملک میں ایک وبا پھیل رہی ہے لہٰذا ہم نے 22 کروڑ لوگوں کا تحفظ یقینی بنانا ہے تو اسی لیے منصوبہ بنایا گیا تھا کہ ایک ہفتے کے لیے باہر سے فلائٹس آئیں گی تو ان افراد کو کیسے رکھا جائے گا اور کہاں ٹیسٹ کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہفتے میں تو فلائٹس صرف اسلام آباد آرہی تھیں اور پہلی فلائٹ کے بعد ہمیں کچھ مسائل آئے اس سے ہم نے سیکھا اور سسٹم میں تبدیلیاں کی گئیں جبکہ اب مزید اس نظام کو بہتر بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ نظام اس بات کو ذہن میں رکھ کر بنایا گیا ہے کہ پاکستان آنے کے خواہشمند افراد آ بھی سکیں اور کسی بھی قسم کا خطرہ بھی نہ ہو اور آنے والے کے ٹیسٹ اور قرنطینہ میں رکھنے سمیت تمام انتظامات کر لیے گئے ہیں۔

عالمی مارکیٹ میں وینٹی لیٹرز نہیں مل رہے، سربراہ این ڈی ایم اے

آخر میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل نے کہا کہ 13 مارچ کے بعد وفاقی کی تمام 7 اکائیوں میں سے صرف سے ہم سے ڈیمانڈ کی گئی لیکن ہم نے سب کو سامان فراہم کیا۔

انہوں نے فراہم کیے گئے سامان کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں ہمیں 6 ہزار لوگوں کے لیے سامان پہنچانا تھا تو ہم نے انہیں 18 ہزار افراد کا سامان دیا اور 20 ہزار افراد کے لیے سامان مزید تیار ہے جسے اگلے تین دنوں میں اس فہرست میں شامل ہر ہسپتال میں یہ سامان پہنچا دیا جائے گا۔

انہوں نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس طرح سندھ کی طرف سے کوئی باقاعدہ تحریری مانگ نہیں کی گئی لیکن ہم نے ان کے ڈاکٹرز اور نرسوں کی گنتی کی جو تقریباً 9 ہزار تھی اور ہم نے انہیں 15 ہزار افراد کا سامان بھجوایا جبکہ سندھ کے 45 ہسپتالوں کے لیے ہم نے مزید انتظام کیا ہے۔

چیئرمین این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کی کل پہلی مرتبہ تحریری ڈیمانڈ آئی ہے وہاں پر انہوں نے ہم سے 9 لاکھ 40 ہزار پی پی ایز مانگے ہیں، انہوں نے پہلے ڈیمانڈ نہیں کی تھی تو ہم نے اپنی گنتی کے حساب سے 10 ہزار 800 پی پی ایز بھیج دیے تھے اور اگلے تین دن میں مزید سامان بھیجوائیں گے۔

لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل نے بتایا کہ بلوچستان نے بھی ڈیمانڈ نہیں کی تھی لیکن ہم نے 2 ہزار کی گنتی کر کے ان کو 8 ہزار افراد کا سامان بھجوایا تھا جبکہ گلگت بلتستان کی 15 ہزار کی ڈیمانڈ پر 24 ہزار افراد سامان بھیجا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے چار پانچ ہسپتالوں نے 18ہزار کی مانگ کی تھی جس پر ہم انہیں 8 ہزار افراد کا سامان دے چکے ہیں جبکہ اگلے تین دن میں مزید 6 ہزار افراد کے لیے سامان بھجوائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آزاد جموں وکشمیر سے 10ہزار کی مانگ آئی تھی جس پر 13ہزار دے چکے ہیں اور مزید 2 ہزار کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ عالمی مارکیٹ میں وینٹی لیٹرز نہیں مل رہے لیکن انشااللہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے تعاون سے اس کمی کو پورا کر لیں گے۔

لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل نے مزید بتایا کہ 13 مارچ کو ہمارے پاس محض 14 لیبارٹریز تھیں جو سوا 2 ہزار ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں، آج 22 لیبارٹریز کام کر رہی ہیں، 12 لیبارٹریز کا سامان صوبوں میں بھیج دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج رات ایک لاکھ ٹیسٹنگ کٹس آ رہی ہیں اور چیکنگ کے بعد ہم ان میں 35 ہزار سندھ، 15 ہزار بلوچستان، 25، 25 ہزار خیبر پختونخوا اور پنجاب کو دیں گے جبکہ پرسوں رات تک 2 لاکھ 35 ہزار کٹس مزید آ جائیں گی۔

محمد افضل کا کہنا تھا کہ کٹس میں موجود این 95 ماسک کے علاوہ پنجاب کو 17ہزار، سندھ کو 8 ہزار، خیرپختونخوا کو 9 ہزار 700، بلوچستان کو 6 ہزار 200، گلگت بلتستان کو 2 ہزار 650، اسلام آباد کی حدود میں واقع ہسپتالوں کو ایک ہزار اور آزاد جموں و کشمیر کو 2 ہزار 800 دیے جا چکے ہیں۔

پاکستان میں خدمات دینے پر افغان خاتون ڈاکٹر کے چرچے

عالمی وبا کے 100 دن، کورونا وائرس نے دنیا کو کیسے بدل دیا؟

گھر بیٹھے بالکل فری میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ ممکن ہوگیا؟