پاکستان

عمر سعید شیخ: ایک طالبعلم سے مجرم تک کا سفر

احمد عمر سعید شیخ کو امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں سزائے موت سنائے جانے کے تقریبا دو دہائیوں کے بعد احمد عمر سعید شیخ جمعرات کو ایک بار پھر اس وقت سرخیوں کی زینت بنے جب سندھ ہائی کورٹ نے ان کے قتل کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اغوا کے الزام میں مجرم قرار دیا۔

کپڑوں کے تاجر کے بیٹے احمد عمر سعید شیخ 1974 میں انگلینڈ میں پیدا ہوئے جہاں انہوں نے نجی اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی، ان کا کنبہ 1987 میں لاہور منتقل ہو گیا تھا جہاں انہوں نے مشہور ایچی سن کالج میں داخلہ لیا تھا لیکن خراب رویے کے سبب انہیں وہاں سے نکال دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: عمر شیخ کی سزائے موت 7 سال قید میں تبدیل، 3 ملزمان رہا

برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق احمد عمر سعید شیخ واپس برطانیہ گئے اور اسنیریس بروک کے فاریسٹ اسکول میں داخلہ لیا۔

انہوں نے 1992 میں لندن اسکول آف اکنامکس میں داخلہ لیا اور برطانوی ادارے گارجین کی رپورٹ کے مطابق وہ برطانیہ کی آرم ریسلنگ ٹیم کے رکن بھی تھے۔

تاہم وہ صرف کچھ عرصہ ہی لندن اسکول آف اکنامکس میں رہے اور اطلاعات کے مطابق 1992 میں جنگ کے دوران ایک امدادی کارکن کے طور پر بوسنیا گئے اور اس کے بعد اپنی ڈگری مکمل کرنے کے لیے کبھی بھی دوبارہ یونیورسٹی نہیں گئے۔

گارجین نے فاریسٹ اسکول اور لندن اسکول آف اکنامکس میں عمر سعید شیخ کے ہمراہ رہنے والے صحافی سید علی حسن کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک ذہین لیکن غیرفعال طالبعلم تھے اور انہوں نے بتایا تھا کہ وہ امدادی قافلے کے ساتھ بوسنیا گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: ملزم کی گرفتاری پر اہل خانہ خوش

گارجین کے مطابق بوسنیا کی جنگ شیخ کے لیے ایک 'اہم موڑ' ثابت ہوئی اور یہ نقطہ نظر 1994 میں احمد عمر سعید شیخ سے کی جانے والی تفتیش میں سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فرقہ ورانہ تنازع نے انہیں پریشان کردیا تھا۔

شیخ کا دہشت گردی سے تعلق پہلا حقیقی تعلق اس وقت قائم ہوا جب وہ حرکۃ الانصار کا حصہ بنے، 1990 کی دہائی کے وسط میں امریکا کی جانب سے اس گروہ پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد حرکۃ المجاہدین کی تشکیل نو کی اور وہ مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کرنے والے اہم حریت پسندوں میں سے ایک تھے۔

1997 میں انہیں اسٹنگ آپریشن کے دوران بھارتی فورسز نے گرفتار کر لیا تھا جس کے بعد وہ دسمبر 1999 تک قید میں رہے لیکن اس کے بعد قندھار میں ایک ہندوستانی ہوائی جہاز کے اغوا کاروں نے جیش محمد کے مسعود اظہر کے ہمراہ ان کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔

احمد عمر سعید شیخ کو 2002 میں پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈینئیل پرل کے قاتلوں کو رہا کروانے کا منصوبہ ناکام

دی گارجین نے اطلاع دی کہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ڈینیئل پرل کی ایک تصویر سے عمر سعید شیخ کا پتہ چلا تھا اور جب عمر شیخ حکام کی تحویل میں تھے اسی دوران ڈینئل پرل کی خون آلود ویڈیو کراچی میں امریکی سفارت خانے کو بھیجی گئی تھی۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے احمد عمر سعید شیخ کو سزائے موت سنائی تھی لیکن ان کے وکلا نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔

جیل میں رہنے کے باوجود ان پر عسکریت پسندوں سے رابطے کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا اور فوجی تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ شیخ نے 2002 میں سابق صدر پرویز مشرف کے قتل کے ابتدائی منصوبوں کو تیار کیا تھا اور ان حملوں کے لیے رقم جمع کی تھی۔

ان پر 2002 کے اوائل میں ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے میں ملوث ہونے کا بھی شبہ ہے جہاں اسلحے کے سبب پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے اور دونوں ملکوں کی فوجیں سرحدوں پر آ گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کا ملزم باعزت بری

سندھ ہائی کورٹ نے آج (جمعرات) سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے عمر شیخ کو اغوا کے الزام میں 7 سال قید کی سزا سنائی۔

احمد عمر سعید شیخ کیونکہ پچھلے 18 سالوں سے جیل میں ہیں لہٰذا ان کی 7 سال کی سزا پورے وقت سے شمار کی جائے گی اور اس وجہ سے ان کی رہائی متوقع ہے۔

خیال رہے کہ وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی میں اس وقت اغوا کر کے قتل کردیا گیا تھا جب وہ مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے ایک مضمون پر کام کررہے تھے۔