دنیا

ترک صدر، ایرانی سپریم لیڈر کی بھارت میں مسلمانوں پر تشدد کی مذمت

آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھارت سے انتہا پسند ہندوؤں کا مقابلہ کرنے اور مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے پر زور دیا تھا۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر بھارتی 'مظالم اور نسل کشی' کے اقدامات کی مذمت کی جس پر وزیر اعظم عمران خان نے ان کا شکریہ ادا کیا۔

ٹوئٹر پر وزیر اعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مسلم ممالک کی جانب سے محض 'چند آوازیں' ہی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی 'انتہا پسند ہندو بالادستی' کے خلاف اٹھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'افسوس کی بات ہے کہ مسلم ریاستوں سے چند ممالک نے بھارتی حکومت کے اقدامات کی مذمت کی جبکہ مغربی ممالک سے اٹھنے والی مذمتی آوازیں زیادہ ہیں'۔

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کا بیان ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے اس بیان کے بعد آیا جب انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں بھارت سے 'انتہا پسند ہندوؤں کا مقابلہ کرنے' اور 'مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے' پر زور دیا تھا۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ 'بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام پر پوری دنیا کے مسلمان غمزدہ ہیں'۔

واضح رہے کہ چند روز قبل ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی نئی دہلی کے فسادات میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد رویہ اختیار کرنے پر تنقید کی تھی جس کے بعد نئی دہلی میں ایرانی سفیر کو بلا کر احتجاج کیا گیا تھا کہ 'ایرانی وزیر خارجہ کا بیان بھارت کے داخلی امور میں مداخلت کے مترادف ہے'۔

ایران کے سپریم لیڈر نے مزید کہا کہ 'بھارت کی حکومت کو چاہیے کہ بھارت انتہا پسند ہندووں اور ان کی جماعتوں کا مقابلہ کرے اور مسلمانوں کا قتل عام بند کرے ورنہ مسلم ممالک کی جانب سے نئی دہلی کو تنہائی کا سامنا ہوگا'۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب سے ٹوئٹ کے ساتھ ہیش ٹیگ #IndianMuslimslnDanger بھی استعمال کیا گیا۔

اس سے قبل ایران نے بھارت میں مسلمانوں پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'بے حس اور پرتشدد رویہ' قرار دیا تھا۔

ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے لکھا تھا کہ 'ایران، بھارتی مسلمانوں پر منظم تشدد کی لہر کی مذمت کرتا ہے'۔

خیال رہے کہ 23 فروری کو انتہا پسند ہندوؤں نے مسلم اکثریت والے علاقوں میں حملہ کرتے ہوئے وہاں آگ لگادی تھی اور مساجد کو اور مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔

ان حملوں کے دوران ہجوم کی جانب سے متعدد لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا یا تشدد کرکے ان کی جان لے لی گئی تھی جس کے باعث مجموعی طور پر 42 افراد قتل ہوئے اور ان میں زیادہ مسلمان تھے جبکہ پرتشدد واقعات کے نتیجے میں درجنوں افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔

ان پرتشدد کارروائیوں کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کی سازش صریح تھی کیونکہ حملوں کے دوران پولیس یا تو تماشائی بنی رہی یا انہوں نے مشتعل ہجوم کا ساتھ دیا، اس کے علاوہ ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں زخمی مسلمانوں کو پولیس اہلکاروں کی جانب سے زمین پر بیٹھنے اور حب الوطنی کے گانے گانے پر مجبور کیا جارہا تھا جو پولیس اور حملہ آوروں کے درمیان گٹھ جوڑ کو عیاں کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایرانی وزیر خارجہ کا دہلی فسادات سے متعلق بیان، بھارت میں ایرانی سفیر طلب

یہی نہیں بلکہ ہجوم کے کچھ رہنما بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کی تعریف کرتے بھی نظر آئے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کی مذمت بھی نہیں کی۔

علاوہ ازیں یہ بھی تصور کیا جارہا کہ یہ حملے آر ایس ایس کے کارکنوں کی جانب سے کیے گئے اور انہیں متنازع شہریت قانون کے خلاف دسمبر سے ہونے والے احتجاج کا جواب قرار دیا گیا۔

پشاور زلمی نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو 30 رنز سے شکست دے دی

پلاسٹک کے پودے کو 2 سال تک اصلی سمجھنے والی خاتون

انتخابات سے قبل رولز آف گورننس طے کرنے کی ضرورت ہے، شاہدخاقان عباسی