پاکستان

آغا خان، ڈاؤ یونیورسٹی ہسپتال میں کورونا وائرس کے نئے کیسز سے متعلق افواہیں مسترد

بعض افرادکورونا وائرس کیسز سے متعلق غیر مصدقہ خبریں پھیلا رہے ہیں، عوام افواہوں پر کان نہ دھریں، ہسپتال کی وضاحت
|

ڈاؤ یونیورسٹی ہسپتال اور آغا خان یونیورسٹی ہپستال (اے کے یو ایچ) نے کورونا وائرس کے مزید کیسز کے حوالے سے گردش کرنے والی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے عوام کو ایسی بے بنیاد خبروں پر کان نہ دھرنے کی اپیل کی ہے۔

کورونا وائرس سے متعلق خبروں پر اعلامیے میں بتایا گیا کہ اے کے یو ایچ باخبر ہے اور بعض افراد اور گروہوں کی جانب سے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد سے متعلق جعلی اور غیر مصدقہ خبریں شائع کی جارہی ہیں جو غیر ضروری خوف و ہراس کی وجہ بن رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں کورونا وائرس کے پانچویں کیس کی تصدیق

آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'ہم مریضوں کی اسکریننگ کر رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی کیس نظروں سے اوجھل نہ ہوجائے'۔

علاوہ ازیں کہا گیا کہ 'آج تک صرف ایک شخص میں CoVID-19 وائرس کی تصدیق ہوئی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ہسپتالوں میں داخل ہونے والے ہر شخص کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہر قسم کے اقدامات کررہے ہیں، ہمارے آپریشن بلا تعطل جاری ہیں اور ہسپتال اور اس کے کلینک محفوظ اور کھلے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اے کے یو ایچ متعلقہ ایجنسیوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کورونا وائرس کے معاملات کو سنبھالنے کے لیے سہولت موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کی ابتدائی انتباہی علامات کی شناخت ہوگئی

بیان میں شہریوں سے صرف اے کے یو ایچ، حکومت یا عالمی ادارہ صحت کی طرف سے آنے والی معتبر خبروں پر ہی انحصار کرنے کی اپیل کی گئی۔

اے کے یو ایچ نے شہریوں کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں اور کھانسی/چھینکنے پر ٹشو پیپر کا استعمال کریں۔

عوام افواہوں پر کان نہ دھریں، ڈاؤ یونیورسٹی

ڈاؤ یونیورسٹی ہسپتال کے ترجمان نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ ہسپتال میں کرونا وائرس سے متاثر کوئی مریض موجود نہیں ہے۔

سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے وائرل ہونے والی افواہوں کی تردید کرتے ہوئے ڈاؤ یونیورسٹی ہسپتال کے ترجمان نے کہا کہ سینکڑوں مریضوں کی آمد اور کوروناوائر س کی وبا کے پھیلنے اور راشن جمع کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے جو غلط ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں کورونا کے مریضوں کے لیے جو 10بستروں کے آئسولیشن وارڈز قائم کیےہیں ، اس میں کوروناوائرس کا کوئی متاثرہ مریض تاحال موجود نہیں ہے۔

اعلامیے کے مطابق اب تک کورونا وائرس کے جو بھی مشتبہ کیسز آئے ہیں، ان کی آمد اور ٹیسٹ کی رپورٹس تک تمام مراحل سے لمحہ بہ لمحہ حکومتِ سندھ کے محکمہ صحت کی جانب سے مقرر کیے گئے افسران، خصوصی سیلز اور یونٹس کو آگاہ کیا جاتاہے، جس کے بعد پوری سرکاری مشینری متحرک ہوجاتی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ پڑوسی ممالک میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد حکومت کی سطح پر انتہائی سخت اقدامات کیے گئے ہیں، ایسے مشکل وقت میں بعض غیر ذمہ دار افراد کی جانب سے اس قسم کی افواہوں کوپھیلانا، نہ صرف قوم کے ساتھ سنگین مذاق ہے، بلکہ قابلِ مذمت عمل بھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاؤ یونیورسٹی اس نازک موقع پر اپنی بھر پور صلاحیت کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے ہمہ وقت موجود ہے۔

ہسپتال کی جانب سے جاری اعلامیے میں اپیل کی گئی ہے کہ عوام افواہوں پر کان نہ دھریں اور ناداستہ طورپر ایسی خبروں کو پھیلانے سے گریز کریں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قومی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے پاکستان میں پانچویں کورونا وائرس کیس کی تصدیق کی تھی۔

نئے مریض کی شناخت گلگت کی رہائشی 45 سالہ خاتون کے طور پر ہوئی۔

ہفتے کے روز گلگت کے ضلعی ہسپتال سے اس کے نمونے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد بھیجے گئے جہاں وائرس کا مثبت ٹیسٹ آیا۔

کورونا وائرس ہے کیا؟

کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے جو مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔

کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔

ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔

عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔

ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔

کورونا وائرس سے متعلق مزید اہم خبروں کے لیے یہاں کلک کریں۔

سیاحوں کی بڑھتی تعداد سے پریشان شہر کے 'انوکھے منصوبے'

حکومت نے نواز شریف کی واپسی کیلئے برطانیہ کو خط لکھ دیا

4 زبانیں بولنے والے افراد کا 40 گھروں پر مشتمل منفرد گاؤں