سوات میں فائرنگ سے صحافی قتل
مینگورہ: سوات کی تحصیل مٹہ کے علاقے شکردارا میں ایک صحافی کو فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مقتول صحافی امن کمیٹی کے رکن کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ(ن) کے مقامی رہنما بھی تھے۔
پولیس کے مطابق جاوید اللہ خان کار میں سوار ہو کر اپنے کھیتوں پر جارہے کہ نامعلوم حملہ آوروں نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے۔
جس کے بعد انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ دورانِ علاج دم توڑ گئے، تاہم حملے کے وقت کار میں صحافی کے ساتھ موجود پولیس گارڈ محفوظ رہا۔
یہ بھی پڑھیں: سال 2019، صحافیوں، سیاستدانوں اور ایکٹویسٹس کے لیے مشکل ثابت ہوا، رپورٹ
ادھر واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور انسداد دہشت گردی کے حکام نے جائے وقوع پر پہنچ کر علاقے کو خالی کروایا اور سرچ آپریشن شروع کردیا۔
خیال رہے کہ جاوید اللہ خان اردو روزنامہ اوصاف (اسلام آباد) کے بیوروچیف تھے۔
ان کے چھوٹے بھائی حمیداللہ خان سوات کے علاقے مینگورہ میں ڈان کے سابق نامہ نگار تھے جبکہ اب وہ قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ سے وابستہ ہیں۔
یاد رہے کہ چند روز قبل سندھ سے تعلق رکھنے والے صحافی عزیز میمن کی لاش پراسرار حالت میں نوشہرو فیروز کے نواحی شہر محراب پور کی ایک نہر سے برآمد ہوئی تھی۔
مزید پڑھیں: دنیا بھر میں 2019 میں 49 صحافیوں کو قتل کیا گیا، آر ایس ایف
محراب پور پولیس تھانے کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) عظیم راجپر نے بتایا تھا کہ عزیز میمن کے گلے میں الیکٹرک تار تھی، تاہم فوری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ ان کی ہلاکت کیسے ہوئی؟
آخری اطلاعات تک عزیز میمن کی پراسرار ہلاکت کا مقدمہ دائر نہیں کیا جا سکا تھا تاہم میڈیا پر خبریں سامنے آنے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ نے ان کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی تھی۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے نوشہروفیروز پولیس سے جلد رپورٹ طلب کرتے ہوئے صحافی کے قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔
خیال رہے کہ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ برس کم از کم 7 صحافی ہلاک اور انسداد دہشت گردی اور دیگر قوانین کے تحت 60 صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں فرائض کی انجام دہی کے دوران کم از کم 7 صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ 15 زخمی ہوئے۔
ان 7 مقتول صحافیوں میں سے 5 عروج اقبال، مرزا وسیم بیگ، محمد بلال خان، علی شیر راجپر اور ملک امان اللہ خان شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ میڈیا پر حملہ کرنے والوں کے لیے غیر اعلانیہ استثنیٰ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میڈیا کے کارکنان کا کوئی ایک قاتل یا حملہ کرنے والا انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکا۔