دنیا

'امن معاہدے کے بعد افغان سرزمین کسی ملک کےخلاف استعمال نہیں ہوگی'

امن معاہدے کے نتیجے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں افغانستان کے مختلف امور پر بات ہوگی، سہیل شاہین

قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق امریکا سے معاہدے کے نتیجے میں اعتماد سازی کے لیے اقدامات کے علاوہ واشنگٹن، افغانستان سے اپنی افواج نکالے گا اور طالبان یہ یقین دہانی کرائیں گے کہ ان کی سرزمین امریکا سمیت کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل شاہین نے کہا کہ 'ایک ہفتے تک تشدد کے واقعات میں کمی کا مقصد ایسا ماحول قائم کرنا تھا جس کے بعد معاہدے پر دستخط ہو سکیں، 22 فروری سے پرتشدد واقعات روکنے کا منصوبہ شروع ہو چکا ہے جس پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'امن معاہدے پر دستخط کے بعد دونوں جانب سے اعتماد سازی کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔'

ان کا کہنا تھا کہ '29 فروری کو معاہدے پر دستخط کے بعد دونوں جانب سے قیدیوں کی رہائی کے لیے بھی اقدامات اٹھائے جائیں گے، امریکا ہمارے قیدیوں کو رہا کرے گا اور طالبان کی تحویل میں جو لوگ ہیں انہیں بھی رہا کیا جائِے گا۔'

سہیل شاہین نے کہا کہ 'امن معاہدے کے نتیجے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی، ان بین الاقوامی مذاکرات میں افغانستان میں آئین اور اداروں بالخصوص سیکیورٹی اداروں کے حوالے سے بات ہوگی، اس کے علاوہ ہر موضوع اور ہر مسئلے پر بات چیت کی جائے گی اور پھر اتفاق سے اس سے متعلق فیصلے کیے جائیں گے۔'

یہ بھی پڑھیں: امریکا، افغان طالبان کا 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط کرنے کا اعلان

انہوں نے کہا کہ 'اس معاہدے پر دستخط کے بعد امریکا، افغانستان سے اپنی فوجوں کو بتدریج نکالے گا، یہ سب کچھ ایک باقاعدہ ٹائم فریم کے تحت ہوگا اور بین الاقوامی کانفرنس کے دوران امریکا اس ٹائم فریم کا اعلان کرے گا۔'

ان کا کہنا تھا کہ طالبان اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغانستان کی سرزمین امریکا سمیت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔

واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد 29 فروری کو معاہدے کا امکان ہے اور دونوں جانب سے اس پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔

معاہدے سے قبل ایک ہفتے کے منصوبے پر اتفاق کیا گیا تھا جس کے تحت دونوں جانب سے پرتشدد واقعات میں کمی لائی جائے گی، اس منصوبے کا اطلاق 21 اور 22 فروری کی درمیان شب سے ہو چکا ہے۔

خیال رہے کہ افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان گزشتہ ایک برس سے مذاکرات جاری ہیں جن میں درمیان میں تعطل بھی آیا، لیکن پھر دوبارہ آغاز ہوا اور اب ایک ہفتے کی جنگ بندی کی کامیابی کی صورت میں معاہدے کو حتمی شکل دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: 'اگر طالبان نے امن منصوبے کی پاسداری نہیں کی تو جوابی کارروائی کا حق رکھتے ہیں'

رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کی جنگ بندی سے یہ ظاہر ہوگا کہ طالبان کا اپنے جنگجوؤں پر کنٹرول ہے اور معاہدے کی کامیابی کے لیے سنجیدہ ہیں جبکہ معاہدے کے بعد واشنگٹن، افغانستان سے اپنے فوجیوں کی نصف تعداد کم کرے گا جو اس وقت 12 ہزار سے 13 ہزار تک ہے۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ طالبان سے کامیاب اتفاق رائے کے بعد مذاکرات حتمی شکل اختیار کرنے پر معاہدے پر دستخط کردوں گا۔