لاہور ہائی کورٹ: نواز شریف کے بھتیجے یوسف عباس کی درخواست ضمانت منظور
لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر ملز منی لانڈرنگ کی تفتیش کے حوالے سے گرفتار سابق وزیراعظم نواز شریف کے بھتیجے یوسف عباس کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے یوسف عباس کی ضمانت کے لیے دائر درخواست پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سنایا۔
یوسف عباس کی طرف سےامجد پرویز ایڈووکیٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے جبکہ اسپیشل پراسکیوٹر سید فیصل رضا بخاری نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی نمائندگی کی۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ شریف فیملی ایک کاروباری خاندان ہے اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہے، یوسف عباس کو نیب نے چوہدری شوگر ملز منی لانڈرنگ کے حوالے سے انکوائری کے لیے گرفتار کیا۔
مزید پڑھیں:چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم
ان کا کہنا تھا کہ نیب نے یوسف عباس کو 19 جولائی 2019 کو کال اپ نوٹس بھیجا جس کا مکمل جواب دیا گیا تھا لیکن 8 اگست 2019 کو جب کوٹ لکھپت جیل میں نواز شریف سے ملاقات کے لیے گئے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت کے لیے دائر درخواست میں یوسف عباس نے موقف اپنایا کہ نیب کی حراست میں 48 دن جسمانی ریمانڈ پر رہا لیکن کوئی شواہد عدالت میں پیش نہیں کیے گیے حالانکہ نیب نے 410 ملین کی رقم کا الزام لگایا جبکہ اس کا تمام ریکارڈ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام رقم بینکنگ چینل سے پاکستان آئی اور اس پر ٹیکس بھی دیا گیا۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ مریم نواز اور نواز شریف کو عدالت سے ضمانت پر رہائی مل چکی ہے جبکہ نیب کا یوسف عباس کے خلاف کیس ان کی نسبت نہایت کمزور ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یوسف عباس اور مریم نواز کی گرفتاری کی وجوہات ملتی جلتی ہیں، کیونکہ نیب مریم نواز والے الزامات اور اسی رقم کی منی لانڈرنگ کا الزام یوسف عباس پر بھی لگا رہا ہے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب نے مریم نواز اور یوسف عباس کے خلاف الزامات میں ایک ہی موقف اختیار کیا ہوا ہے، یوسف عباس کے خلاف کوئی مخصوص الزام نہیں لگایا، نیب صرف اس حد تک تسلیم کرتا ہے کہ یوسف عباس نے مریم نواز کو فائدہ پہنچانے کے لیے منی لانڈرنگ کی۔
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک سے آنے والی تمام رقم کو یوسف عباس نے ایف بی آر میں ڈیکلیئر کر رکھی ہے،417 ملین روپے کی رقم ٹیکس اتھارٹی کو ڈیکلیئر کی جا چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کی سزا 8 ہفتوں کیلئے معطل
یوسف عباس کے وکیل نے کہا کہ اپنے اکائونٹ سے رقم نکلوا کر واپس جمع کروانا کوئی جرم نہیں ہے، جس رقم کا الزام عائد کیا گیا وہ یوسف عباس کی ڈیکلیئر کی گئی انکم سے انتہائی کم ہے اور یوسف عباس کبھی بھی پبلک آفس ہولڈر نہیں رہے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب کہتا ہے کہ جب یوسف عباس 10 سال کا تھا تو تب سے منی لانڈرنگ کے لیےنواز شریف کی معاونت کرتا رہا ہے، یہ باتیں تو ہم ٹرائل کورٹ میں ثابت کریں گے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ یوسف عباس کو8 اگست 2019 کو گرفتار کیا گیا مگر اب تک ریفرنس دائر نہیں کیا گیا۔
نیب پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری نے کہا کہ تقریباً ایک ارب روپے سے زائد رقم ملزم یوسف عباس کے اکاؤنٹ میں آئی اور بعد میں چوہدری شوگر ملز کو منتقل کیا گیا جس کو چودہدری شوگر ملز کا ملازم زاہد مرتضیٰ تسلیم کر چکا ہے اور اس کا بیان بھی موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یوسف عباس 2006 سے 2018 تک چوہدری شوگر ملز کا ڈائریکٹر رہا اور یوسف عباس کے اکاؤنٹ میں 538ملین روپے نقد کی صورت میں آئے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یوسف عباس کے اکاؤنٹ میں براہ راست بیرون ملک سے رقم آئی، جب ملزم نے رقم نکلوا کر چوہدری شوگر ملز کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی اور اس وقت ملزم چوہدری شوگر ملز کا ڈائریکٹر تھا۔
اس موقع پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کی روشنی میں کرپشن کرپٹ پریکٹس کے شواہد نیب نے دینے ہیں،علیم خان سمیت متعدد نیب کے مقدمات میں بھی یہی نکتہ زیر بحث آ چکا ہے۔
نیب کے وکیل نے کہا کہ53 کروڑ 80 لاکھ روپے کی رقم کا ریکارڈ ملزم کے پاس موجود ہی نہیں، آمدن کے ذرائع بتائے بغیر 13 کروڑ روپے یوسف عباس کے اکاؤنٹ میں آئے، متحدہ عرب امارات سے 13 کروڑ روپے کی رقم وصول کرنے کو ظاہر نہیں کیا گیا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس علی باقر نجفی نے سوال کیا کہ ملزم کے اکاؤنٹ سے رقم کہاں گئی جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ رقم چوہدری شوگر ملز کے اکاؤنٹ میں گئی۔
جسٹس باقر نجفی نے کہا کہ ملزم نے اگر تو خود وہ رقم نکلوا کر استعمال کی تو پھر صورت حال اور ہونا تھی، کیا چوہدری شوگر ملز کے اکاؤنٹ سے ملزم نے کوئی رقم نکلوائی۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یوسف عباس چوہدری شوگر ملز کا ڈائریکٹر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر رہے ہیں اور چوہدری شوگر ملز کو نقصان میں چلنے کا بیان دیتے ہیں۔
فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ سنایا اور یوسف عباس کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔
چوہدری شوگر ملز کیس
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے دوران جنوری 2018 میں ملک میں مالی امور کی نگرانی کرنے والے شعبے نے منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت چوہدری شوگر ملز کی بھاری مشتبہ ٹرانزیکشنز کے حوالے سے نیب کو آگاہ کیا تھا۔
نیب کو اس کیس میں چوہدری شوگر ملز کی مرکزی شراکت دار کی حیثیت سے بڑی رقم کی سرمایہ کاری کے ذریعے منی لانڈرنگ میں مریم نواز کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔
مریم نواز پر الزام ہےکہ وہ 93-1992 کے دوران کچھ غیر ملکیوں کی مدد سے منی لانڈرنگ میں ملوث رہی اور اس وقت نواز شریف وزیراعظم تھے۔
اس کیس میں اکتوبر 2018 میں نیب کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف اور ان کے بھائی عباس شریف کے اہلِ خانہ، ان کے علاوہ امریکا اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ غیر ملکی اس کمپنی میں شراکت دار ہیں۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ چوہدری شوگر ملز میں سال 2001 سے 2017 کے درمیان غیر ملکیوں کے نام پر اربوں روپے کی بھاری سرمایہ کاری کی گئی اور انہیں لاکھوں روپے کے حصص دیے گئے۔
اس کے بعد وہی حصص متعدد مرتبہ مریم نواز، حسین نواز اور نواز شریف کو بغیر کسی ادائیگی کے واپس کیے گئے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ کمپنی میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے غیر ملکیوں کا نام اس لیے بطور پراکسی استعمال کیا گیا کیوں کہ شریف خاندان کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی جانے والی رقم قانونی نہیں تھی۔
جس پر 31 جولائی 2019 کو تفتیش کے لیے نیب کے طلب کرنے پر مریم نواز پیش ہوئیں تھیں اور چوہدری شوگر ملز کی مشتبہ ٹرانزیکشنز کے سلسلے میں 45 منٹ تک نیب ٹیم کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔
اس کیس میں یوسف عباس اور مریم نواز نے تحقیقات میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکیوں کو پہچاننے اور رقم کے ذرائع بتانے سے قاصر رہے اور مریم نواز نوٹس میں بھجوائے گئے تاہم سوالوں کے علاوہ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکی تھیں۔
جس پر نیب نے مریم نواز کو 8 اگست کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے ان سے چوہدری شوگر ملز میں شراکت داری کی تفصیلات، غیر ملکیوں، اماراتی شہری سعید سید بن جبر السویدی، برطانوی شہری شیخ ذکاؤ الدین، سعودی شہری ہانی احمد جمجون اور اماراتی شہری نصیر عبداللہ لوتا سے متعلق مالیاتی امور کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اس کے ساتھ مریم نواز سے بیرونِ ملک سے انہیں موصول اور بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر/ٹیلیگرافگ ٹرانسفر کی تفصیلات بھی طلب کی گئی تھیں۔
تاہم 8 اگست کو مریم نواز کو کوٹ لکھپت جیل میں اپنے والد نواز شریف سے ملاقات کے بعد واپسی پر جیل کے باہر سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔