چین سے پاکستانی طلبہ کی واپسی کا معاملہ: والدین کی سہولت کیلئے فوکل پرسن مقرر کرنے کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چین میں پھنسے پاکستانیوں کی واپسی سے متعلق کیس میں حکومت کو چین میں موجود طلبہ کے والدین کی سہولت کے لیے فوکل پرسن مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔
وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چین میں پھنسے پاکستانیوں کی واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران وزارت خارجہ کے نمائندے، متاثرہ بچوں کے والدین اور دیگر افراد پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران متاثرہ بچوں کے والدین نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ وقت ضائع نہ ہو اور ہمیں پچھتاوا نہ رہ جائے، اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ چین میں پھنسے پاکستانیوں کے خاندانوں کو بلا کر انہیں تسلی دیں، ریاست نے بچوں کی سیکیورٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے۔
اس پر ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) وزارت خارجہ نے کہا کہ 21 جنوری سے ووہان لاک ڈاؤن میں ہے، جس کیمپس میں کورونا وائرس سے متاثرہ بچوں کو منتقل کیا گیا وہ یونیورسٹی سے فاصلے پر ہے۔
مزید پڑھیں: چین سے پاکستانیوں کی واپسی کا معاملہ: 'ریاست اپنے شہریوں کی ذمہ داری لے'
انہوں نے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او اور چین کی حکومت نے بہت سخت اقدامات کیے ہوئے ہیں جبکہ وزارت خارجہ 24 گھنٹے چین میں پاکستانیوں کے معاملے کو مانیٹر کر رہا ہے۔
وزارت خارجہ کے ڈی جی نے بتایا کہ ووہان سے فلائٹ آپریشن مکمل طور پر معطل ہے۔
تاہم انہوں نے عدالتی ریمارکس پر کہا کہ بچوں کے والدین سے ملاقات کرکے صورتحال سے آگاہ کرنے کو تیار ہیں، اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کوئی حکم جاری نہیں کرے گی، ریاست نے اپنی ذمہ داری خود نبھانی ہے۔
سماعت کے دوران متاثرہ بچوں کے والدین نے کہا کہ ہم نے احتجاج کیا مگر حکومتی شخصیات نہیں آئیں، ہمارے احتجاج کی خبر بھی میڈیا پر نہیں آئی۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آسٹریلیا ہم سے بہت جدید ملک ہے اور وہ بھی اپنے بچوں کو بہت دور جزیرے پر لے گئے ہیں، آسٹریلیا نے بھی چین سے آنے والے بچوں کو شہروں میں نہیں رکھا (لہٰذا) کوئی طریقہ کار بنا کر متاثرہ بچوں کے والدین کو بریفنگ دیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ چاہے تو وزارت خارجہ کوئی سیل بنا لے تاکہ لوگ آپ سے رابطہ کرسکیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ متاثرین کہتے ہیں کہ ریاست انہیں پوچھ نہیں رہی، آئندہ سماعت سے پہلے متاثرین کو مطمئن کریں۔
اس پر ڈی جی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر 64 ہزار افراد مشتبہ طور پر کورونا وائرس سے متاثر ہوئے، مشتبہ طور پر ایک ہزار افراد روزانہ کی بنیاد پر متاثر ہورہے ہیں جبکہ 100 افراد روزانہ کی بنیاد پر کورونا وائرس سے مر رہے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے فریقین کی بات سننے کے بعد حکومت کو چین میں موجود پاکستانی طلبہ کے والدین کی سہولت کے لیے فوکل پرسن مقرر کرنے کا حکم دے دیا، ساتھ ہی بچوں کے والدین کی جانب سے بھی نمائندہ مقرر کرنے کی ہدایت کردی اور کیس کی مزید سماعت کو 21 فروری تک ملتوی کردیا۔
خیال رہے کہ چین میں مہلک کورونا وائرس کے وار سے اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک جبکہ 40 ہزار کے قریب اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔
اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے چین کے صوبے ہوبے کے شہروں کا لاک ڈاؤن اور ملک سے زمینی و فضائی روابط منقطع کردیے گئے تھے جبکہ لاکھوں افراد کی نقل و حرکت بھی روک دی گئی۔
اس کے علاوہ کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو چین سے نکالنے کے لیے اقدامات کیے تھے تاہم پاکستان نے وہاں سے پاکستانیوں کو واپس نہ لانے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم گزشتہ دنوں حکومت پر پڑنے والے دباؤ کے باعث معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا تھا کہ اس حوالے سے تمام آپشنز زیر غور ہیں اور جلد فیصلہ کرلیا جائے گا۔
کورونا وائرس ہے کیا؟
کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔
کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: چین سے شہریوں کی واپسی کے لیے تمام آپشنز زیر غور ہیں، ظفر مرزا
ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔
عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔
ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔