دنیا

ادلب میں ترکی اور شام کے درمیان تنازع کے حل کیلئے تیار ہیں، ایران

خطے کی صورتحال تشویشناک ہے، ہمیں اس تنازع کو ہاتھ سےنکل جانے سےقبل حل کرنےکی کوشش کرنی چاہیے،اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر

اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر کا کہنا ہے کہ ان کا ملک صوبہ ادلب میں ترکی اور شام کے درمیان تنازع کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کو تیار ہے۔

ایرانی اخبار 'تہران ٹائمز' کی رپورٹ کے مطابق ماجد تخت روانچی نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ 'ادلب میں پیشرفت سے متعلق دمشق اور انقرہ کے درمیان اختلافات ختم کرانے کے لیے ایران ہر ممکن کوشش کرنے کو تیار ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'خطے کی صورتحال تشویشناک ہے، اس لیے ہمیں اس تنازع کو ہاتھ سے نکل جانے سے قبل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔'

ادلب کی صورتحال پر سوچی معاہدے پر روشنی ڈالتے ہوئے ماجد تخت روانچی کا کہنا تھا کہ 'آستانہ اجلاس میں بھی اس معاہدے پر روشنی ڈالی گئی تھی۔'

یہ بھی پڑھیں: شام میں ترکی کی مداخلت ختم ہونی چاہیے، سعودی وزیر خارجہ

گزشتہ روز دمشق نے ادلب میں ترکی کی فوج کی تعیناتی اور شام میں اسرائیل کی حالیہ فضائی بمباری کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انقرہ، تل ابیب حکومت کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کام کر رہا ہے۔

شام کی سرکاری نیوز ایجنسی 'ثنا' کی رپورٹ میں میں دمشق کی وزارت خارجہ کے نامعلوم ذرائع کا حوالہ دے کر کہا گیا تھا کہ 'ترک فورسز، اسرائیلی حکومت کے قریبی تعاون سے شامی سرحدیں عبور کرتے ہوئے مختلف علاقوں میں تعینات کی جارہی ہیں۔'

ذرائع نے کہا کہ یہ اقدامات ترک اور اسرائیلی حکومتوں کے دہشت گردوں بالخصوص جبحت فتح الشام (سابق النصرہ فرنٹ) کی حفاظت، ادلب اور حلب میں شامی آرمی کی کامیابیوں میں رکاوٹ ڈالنے اور شام میں اپنے پراکسیز کو مکمل شکست سے بچانے کے مشترکہ مفادات کے لیے متحد ہیں۔

مزید پڑھیں: شام میں اسرائیل کے فضائی حملے، 23 افراد ہلاک

نام ظاہر نہ کرنے والے عہدیدار کا کہنا تھا کہ جمعرات کی علی الصبح ترک فورسز کی تعیناتی اور اسرائیل کی بمباری شام کی خود مختاری اور بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے اور اس سے پوری دنیا کے سامنے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شام میں کون دہشت گردی کی حمایت، مدد اور حفاظت فراہم کر رہا ہے۔

ذرائع نے کہا کہ ایسے واقعات نے ترک صدر رجب طیب اردوان کے چہرے سے نقاب اتار دیا ہے جو اسرائیل سے دشمنی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔